اسلام آباد۔4اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار مخدوم سید مرتضیٰ محمود نے کہا کہ توانائی بحران کے تناظر میں جامع سولر پالیسی کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے، انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈتین ماہ کے اندر ایک مستقل پالیسی تشکیل دے۔ ان خیا لات کا اظہار انہوں نے منگل کو متبادل توانائی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ کا اہتمام انجیئنرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے وزارت صنعت و پیداوارکی نگرانی میں کیا تھا تاکہ سولر پالیسی سے متعلق شیئر ہولڈرز سے مشاورت کی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی کمپنیوں کیلئے رکاوٹیں دور کی جائیں گی اور پرائیویٹ سیکٹر پر زور دیا جائے گا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کریں۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے پہلے ہی سولر کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے،قومی سطح پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2022 کے دوران پاکستان کی شمسی توانائی کی طلب (آف گرڈ اور آن گرڈ) 4گیگا واٹ کے لگ بھگ تھی جو اگلے دو سالوں میں بڑھ کر6سے 7گیگاواٹ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس سولر ویفرز بنانے کیلئے بنیادی خام مال کے ذخائر موجود ہیں اور وہ پہلے مرحلے میں اسمبلی کے ساتھ مقامی پیداوار کا عمل شروع کر سکتا ہے، جسے سولر پینلز کی درآمد پر ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کو معقول بنا کر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی مینوفیکچررز کو برابری کا میدان فراہم کرنے کیلئے ٹیکس اور ٹیرف کے نظام کو مزید معقول بنانے کیلئے 5 سالہ منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیاں جنوبی ایشیا سے باہر پلانٹس لگانے کی تلاش میں ہیں جہاں سے وہ یہ مصنوعات عالمی سطح پر برآمد کر سکیں، یہ ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان انہیں اس موقع پر بروقت سازگار ماحول فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک میں سولرائزیشن کو فروغ دینے کیلئے ٹیکس چھوٹ، ان پٹ مواد کی ڈیوٹی فری درآمد ، پلانٹ اور مشینری جیسی کچھ مراعات دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان آج کی بات چیت انجیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ وزارت صنعت و پیداوار سولر پینلز اور اس سے منسلک آلات کی تیاری کے شعبے کی ترقی کے لیے پالیسی دستاویز بنانے میں مدد کرے گی اور یہ آٹو انڈسٹری پالیسی اور موبائل جیسی ایک اور کامیابی کی کہانی ہوگی۔