توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے قابل تجدید توانائی کی ضرورت ہے، ماہرین

192
پشاور، پیڈوصوبے میں 2ہزارمیگاواٹ بجلی کی پیداوارکے متعدد منصوبوں پر کام کر رہا ہے ،پیڈو حکام

اسلام آباد۔18ستمبر (اے پی پی):چیئرمین نیپرا وسیم مختار نے کہا ہے کہ علاقائی مسابقتی ٹیرف کے ذریعے برآمدی شعبے کے لئے توانائی کی استطاعت کو فروغ دینا، قابل اعتماد توانائی کی فراہمی اور ترسیل کے نظام کے لئے سرمایہ کاری میں اضافہ اور رسائی میں اضافہ موجودہ مشکل وقت میں معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے اہم عوامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور ایونٹیو سلوشنز کے زیر اہتمام پاکستان انرجی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کا مقصد پائیدار اقتصادی ترقی کے لئے بڑھتی ہوئی عالمی اور قومی توانائی افراط زر کے تحت پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی منتقلی کو فروغ دینے کے لئے پالیسی حل تلاش کرنا اور عوام کو قیمتوں سے ریلیف فراہم کرنا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے سرکاری اور نجی شعبے کے ماہرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیپرا نے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری پر واپسی کو یقینی بنانے کے لئے پیشن گوئی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اوپیک ممالک کی جانب سے پیداوار بڑھانے سے انکار اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے ، ان حالات میں پاکستان کے توانائی کے بل میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے توانائی کی موجودہ قیمتوں میں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے جس سے حکومت کی سبسڈی میں کمی واقع ہوئی ہے اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی اور بھی اہم ہوگئی ہے۔

ہمیں عالمی اور مقامی سطح پر ایسی حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور صلاحیت کی ادائیگی کے مسائل کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے تاکہ عوام کے کچھ مصائب کو کم کیا جاسکے ۔سابق معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے اس بات پر زور دیا کہ مسابقتی بولی کے ذریعے شمسی اور ہوا کے منصوبوں پر عمل درآمد کی فوری ضرورت ہے۔

انہوں نے سماجی چیلنجوں سے نمٹنے اور پسماندہ برادریوں کے لئے توانائی تک رسائی میں اضافے کے لئے آف گرڈ سسٹم کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔سرمایہ کاری بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی نے کہا کہ حکومت نے ریگولیٹرز گائیڈ لائنز جاری کی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد ریگولیٹری پالیسیاں تشکیل دی جائیں اور آو¿ٹ آف باکس سلوشنز کو فروغ دیا جائے۔

این ٹی ڈی سی کے سابق ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر محمد ایوب نے تجویز پیش کی کہ جنوبی پنجاب جیسے کم لوڈ والے علاقوں میں ونڈ انرجی کو مربوط کیا جائے اور ایسے مقامات سے زیادہ طلب والے علاقوں میں ٹرانسمیشن کو بہتر بنایا جائے تاکہ ٹرانسمیشن کے نقصانات کو روکا جاسکے۔ ایس این جی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی چیئرپرسن روحی خان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ قابل تجدید توانائی ٹیکنالوجیز کی مقامی مینوفیکچرنگ کے لئے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور رعایتی فنانسنگ پر توجہ دے۔

انرجی اپ ڈیٹ کے مشیر عرفان احمد نے موسمی طلب میں اتار چڑھاو¿، پیدا ہونے والی ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ناکافی نیٹ ورک کی صلاحیت اور غیر معمولی موسمی حالات کی وجہ سے سسٹم لوڈ میں اچانک تبدیلیوں پر زور دیا تاکہ پاکستان میں ونڈ انرجی کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاسکے اور موثر استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ عبید الرحمن ضیاءنے توانائی پالیسی کے اہداف میں تضادات کو دور کرنے، نجی فنانس کو کھولنے، منصوبوں کی ترقی میں تاخیر، مارکیٹ اور بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور دیہی بجلی کی فراہمی کے لئے آن گرڈ حل کی ضرورت پر زور دیا۔

ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز کی مدد سے گرڈ اور ٹرانسمیشن سسٹم کو جدید بنا کر حالیہ بلیک آئوٹ جیسے تکنیکی چیلنجز کو موثر طریقے سے کم کیا جاسکتا ہے۔ممبر واپڈا جواد اے لطیف نے کہا کہ واپڈا کا مقصد قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو 2025 تک 12666 میگاواٹ اور 2028 تک 20591 میگاواٹ تک بڑھانا ہے جس سے رسائی میں اضافہ ہوگا اور لاگت میں کمی آئے گی۔

ان منصوبوں کے لیے حکومت کو صرف 25 فیصد فنڈز مختص کرنے ہوں گے جبکہ 75 فیصد فنڈنگ واپڈا کی جانب سے مقامی اور غیر ملکی بینکوں کے ذریعے ایکویٹیز میں کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ واپڈا نے کامیابی کے ساتھ لندن سٹاک ایکسچینج میں گرین یورو بانڈز جاری کیے ہیں اور ان تبدیلی کے منصوبوں کے لئے 500 ملین امریکی ڈالر پہلے ہی محفوظ کئے جا چکے ہیں۔