توانائی کے شعبہ میں لائن لاسز، بلوں کی عدم وصولی اور بجلی چوری کی وجہ سے حائل مالی خلیج پر قابو پانے کے لئے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار

112
جھوٹی خبریں دینے اورانہیں پھیلانے سے قوم کے اقتصادی مفادات کونقصان پہنچ رہاہے، وزیرخزانہ اسحاق ڈار

اسلام آباد۔20فروری (اے پی پی):وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبہ میں لائن لاسز، بلوں کی عدم وصولی اور بجلی چوری کی وجہ سے حائل مالی خلیج پر قابو پانے کے لئے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، گزشتہ حکومت کی ناقص حکمرانی اور بد انتظامی کی وجہ سے2017-2016ء میں دنیا کی 24 ویں معیشت 2022ء میں 47 ویں نمبر پر آ گئی، ہم ایک مرتبہ پھر مل کر ملک کو اسی ڈگر پر چلائیں گے، امریکہ اور کینیڈا کے لئے بزنس کلاس کے ٹکٹ پر اڑھائی لاکھ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپ کے ٹکٹ پر ڈیڑھ لاکھ جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے لئے ٹکٹوں پر 75 ہزار روپے کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی مختص کی گئی ہے۔

پیر کو قومی اسمبلی میں بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ وہ اراکین کے مشکور ہیں جنہوں نے ضمنی مالی بجٹ پر بحث میں حصہ لیا اور اپنی تجاویز دیں، اراکین کی تجاویز کو ضمنی یا آئندہ والے بجٹ کا حصہ بنائیں گے۔ انہوں نے اضافی اقدامات اٹھانے کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ کسی بھی حکومت کا اضافی ٹیکس نافذ کرنے کا دل نہیں کرتا، آئی ایم ایف کے ساتھ ہم نے 10 دن تک مذاکرات کئے، 800 ارب یا اس کے ارد گرد ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں اور حقیقت اس سے زیادہ کوئی مختلف نہیں تھی، آئی ایم ایف سے بات چیت میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ کم سے کم ٹیکسز پر اتفاق ہو، ہمارے توانائی کے شعبے میں تین ہزار ارب روپے بجلی کی لاگت ہے، ہم 1500 ارب روپے تک اکٹھا کر پاتے ہیں،

بجلی چوری، لائن لاسز اور بلز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہم 1450 ارب روپے کے قریب بجلی کی قیمت وصول نہیں کر پاتے، بجٹ سبسڈی کے طور پر 600 ارب روپے سے کچھ کم رقم مختص کی گئی، یہ رقم نکال کر بھی ساڑھے آٹھ سو ارب کا فرق ہے، یہ نئے ٹیکس اس لئے نہیں لگائے گئے کہ ایف بی آر اپنا ہدف پورا نہیں کر سکے گا، آئی ایم ایف کو پوری طرح مطمئن کر دیا گیا کہ ہمارے ٹیکس محصولات جمع کرنے کی رفتار درست ہے اور بجٹ میں اس ایوان نے جو ہدف دیا ہے وہ پورا کریں گے، تاہم توانائی کے شعبے کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کے سلسلے کا ایک قدم مجبوری کی حالت میں لینا پڑا جو 170 ارب روپے تک لے آئے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی لوگوں کی برداشت سے باہر ہے لیکن کیا یہ مہنگائی چند مہینوں کا نتیجہ ہے یا یہ مہنگائی پاکستان میں بدانتظامی، بری حکمرانی، مانیٹری پالیسی کی دھجیاں اڑانے کی وجہ سے ہوئی، فیسکل پالیسی کو زمین دوز کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2016-17ء میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت تھی، 2022ء میں پاکستان کی معیشت 47 ویں نمبر پر چلی گئی، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور وجوہات جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے لئے بہتری پیدا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں ملکی خزانے اور معیشت پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے یہ خصوصی اقدامات موجودہ حکومت کو اٹھانے پڑے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہماری حکومت نے نہیں کیا، یہ پہلے سے تھا اور یہ معاہدہ مشکل ترین شرائط پر کیا گیا، معاہدہ کرنے کے بعد اس کو معطل کر دیا گیا، اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، اس ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد معاہدہ پر عملدرآمد کی بجائے اس سے انکار کر دیا گیا، ان چیزوں کو حکومت اور اپوزیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی عالمی ادارے سے معاہدہ کسی ایک حکومت یا فرد کے نہیں بلکہ ریاست کے ہوتے ہیں اور ہمیں حتیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ ان معاہدوں کی پاسداری کریں، یہی زندہ قوموں کی نشانیاں ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت گھروں کی سربراہ خواتین کے لئے زیادہ سے زیادہ مدد کے لئے ہماری اقتصادی ٹیم نے کوششیں کیں، اس کے نتیجہ میں ان کے وظیفے میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور 40 ارب روپے کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کی تجویز درست ہے، وزیراعظم آئندہ چند دنوں میں اس ایوان میں آ کر اپنے سرکاری اخراجات کم کرنے کے حوالے سے جامع پروگرام پیش کریں گے، کفایت شعاری کو اپنانے کے حوالے سے یہ حکومت اہم اقدامات اٹھائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ضمنی مالی بل میں دی گئی تجاویز پر عملدرآمد ہمارے معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے، اس وقت جو بجٹ خسارہ ہے، چار سالوں میں غیر ملکی قرضوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس میں مالیاتی نظم و ضبط لانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئی اے ٹی اے کے مطابق کینیڈا، امریکہ کے بزنس کلاس ٹکٹ پر اڑھائی لاکھ روپے کے فکس ٹیکس کے حوالے سے ترمیم لائی گئی ہے، مڈل ایسٹ اور افریقہ کی ٹکٹس پر 75 ہزار روپے کی فکس فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے، یورپ کی ٹکٹ پر ڈیڑھ لاکھ روپے ایف ای ڈی لگائی جا رہی ہے، مشرق بعید، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے ٹکٹ پر ڈیڑھ لاکھ روپے مختص کیا جا رہا ہے، یہ تجویز سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے آئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حصص کے کاروبار پر عائد ٹیکس کی ادائیگی پر صارف پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑتا، سٹاک ایکس چینج کے باہر شیئرز کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 10 فیصد کے حوالے سے ٹیکنیکل ترامیم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سگریٹ پر ایف ای ڈی بڑھانے کی تجویز ضمنی مالی بل میں دی گئی تھی، اس میں ایک اضافی شق شامل کی جا رہی ہے جس کے تحت ہر سگریٹ برانڈ اسی کیٹیگری کے مطابق ڈیوٹی کی ادائیگی کرے گا جو ضمنی مالی بل ترمیم 2023ء سے قبل متعین تھی۔ انہوں نے کہا کہ مئی یا جون میں 2023-24ء کے مالی بل میں تمام اچھی تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں، اس کا اثر روز مرہ کی اشیائے ضروریہ پر نہیں ہو گا، اللہ کرے کہ ان اقدامات سے ملک کے معاشی بحران سے نکلنے میں یہ ایک اچھا قدم ثابت ہو، اس بل کی منظوری سے ہم ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نکالیں گے اور پاکستان جلد ترقی اور کامیابی کے راستے پر گامزن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ وہ ملک جس کے تمام معاشی اشاریئے مثبت، شرح نمو 6 فیصد، جس کی سٹاک ایکس چینج دنیا کی پانچویں بہترین سٹاک ایکس چینج تھی اور وہ 2016-17ء میں معاشی اعتبار سے درست سمت میں جا رہا تھا کیوں وہ ملک آج تھوڑی تھوڑی امداد کے لئے پریشان ہے، اس کی بنیادی وجہ گزشتہ حکومت کی ناقص حکمرانی اور بد انتظامی ہے، ہم سب کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، ہم توقع کر رہے تھے کہ ہم دنیا کے جی 20 ممالک میں شامل ہونے جا رہے ہیں، دنیا کا سب سے مستند ادارہ یہ کہہ رہا تھا، ہم ایک ایٹمی قوت ہیں، اگر ہم جی 20 میں شامل ہوتے تو آج ہماری ڈیلنگ مختلف ہوتی، ابھی بھی زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے، ہم ایک مرتبہ پھر مل کر ملک کو اسی ڈگر پر لے جائیں گے اور پاکستان ترقی کرے گا۔۔

قبل ازیں سینیٹ کی جانب سے موصولہ سفارشات اور ضمنی مالی بل 2023ء پر غور کی تحریک پر مزید بحث میں حصہ لیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن مولانا محمود شاہ نے کہا کہ بلوچستان کے 30 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے، ان علاقوں میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ ہے۔، کاشتکاروں کو دی جانے والی سبسڈی جاری رکھی جائے۔ ناصر خان موسیٰ زئی نے کہا کہ مہنگائی سے پہلے ہی غریب پریشان ہے، لائن لاسز، چوری اور عدم ادائیگی کی وجہ سے سرکلر ڈیبٹ 1400 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے، اس کا حل نکالا جاتا تھا تو یہ اضافی کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جاتا۔ نزہت پٹھان نے کہا کہ پاکستان کو مشکل صورتحال سے سب نے مل کر نکالنا ہے، بہت بڑی تعداد بجلی اور گیس کے بل نہیں دیتے۔