اسلام آباد۔12جولائی (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی و پٹرولیم تابش گوہر نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبہ کی بہتری کے لئے بجلی کی پیداوار ، تقسیم و ترسیل کی مربوط اور موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، سالانہ ٹیک آر پے کی بنیاد پر ادائیگی ہو رہی ہے تو آئی پی پیز کی پیداوار بھی ضرورت کے وقت دستیاب ہونی چاہیے، ملک کو جب بجلی کی ضرورت تھی تو بہت سے آئی پی پیز سے پیداوار دستیاب نہیں تھی،معاملے کی انکوائری کرائیں گے۔
پیر کو یہاں نیشنل الیکٹرسٹی پلان 2021 سے متعلق مشاورتی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی 2021 کی مشترکہ مفادات کونسل نے منظوری دی۔ اس کے علاوہ قابل تجدید توانائی کا انرجی مکس میں حصہ بڑھانے کے لئے 2019 میں قابل تجدید توانائی کی منطوری دی گئی اور پن بجلی کو بھی قابل تجدید توانائی کا حصہ بنایا گیا۔
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر 2030 تک کا ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ 60 بجلی قابل تجدید وسائل سے پیدا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی بلا تعطل کی فراہمی، نرخوں میں اضافے کو روکنا اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی میں بہتری بہت اہمیت رکھتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تھرمل پالیسی نہیں ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیااس پالیسی کی ضرورت بھی ہمیں ہوگی۔ کوئلےاور گیس سے ہمیں بجلی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آئندہ 10 سال کے عرصہ کے لئے بجلی کی طلب و رسد کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ پچھلے کئی عشروں میں اس سلسلہ میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور وقتی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے رینٹل پاور جیسے منصوبے لگا دیئے گئے جن کی شائد ضرورت بھی نہیں تھی۔
تابش گوہر نے کہاکہ ملک میں اس وقت بھی زائد بجلی موجود ہے اور رواں سال کے دوران ہمیں 800 سے 900 ارب روپے کپیسٹی چارجز ادا کرنے ہیں۔ 2023 تک یہ رقم بڑھ کر 1455 سے 1500 ارب روپے ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار میں کے منصوبوں کے لئے قرضے کی 10 سے 12 سال کی ادائیگی کی مدت ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔
اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔ موجودہ معاہدوں کے حوالے سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اتنی مدت میں قرضوں کی واپسی سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی مارکیٹ کو آزادانہ بنانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ آئندہ سال کے اوائل تک اس سلسلہ میں کافی پیشرفت ہو گی اور 16 سے 20 فیصد ہول سیلز صارفین آزادانہ طور پر بجلی کی مارکیٹ سے بجلی حاصل کر سکیں گے۔ اس سلسلہ میں ویلنگ کے ذریعے اگر بجلی صارفین حاصل کریں تو حکومت سے ٹیک آر پے کی گارنٹی بھی نہیں لینا پڑے گی۔ بجلی کی مارکیٹ کو آزادانہ بنانا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراس سبسڈی اور وینڈر چارجز کے معاملے پر بھی غور ہونا چاہیے ۔ اس وقت بجلی شعبے کی بہتری اور صارفین کو بہتر خدمات کی فراہمی کے لئے جو اقدامات کئے جار ہے ہیں ان سے 23-2022 میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی مناپلی ختم ہو جائے گی۔ بجلی کی طلب اور پیداوار کے حوالے سے مشکلات پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں آر ایل این جی ٹرمینلز کی ڈرائی ڈاکنگ کی وجہ سے ملک میں بہت زیادہ طوفان برپا کیا گیا اور یہ مسئلہ اتنا نہیں تھا جنتا بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آئندہ کے لئے بجلی کی طلب اور رسد کے تخمینے کی استعداد بھی ہونی چاہیے۔ گزشتہ برس کووڈ۔19 اور رواں سال پانی کی آمد میں کمی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کا حل نکالنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 25 ہزار میگاواٹ کے ایسے منصوبے پائپ لائن میں ہیں جن کو رول بیک نہیں کیا جا سکتا۔ بجلی کی طلب آج 23 ہزار میگاواٹ ہے تو یہ اگلے 10 برس میں دوگناہو جائے گی اور معیشت 4 فیصد کی شرح سے اگر ترقی کررہی ہے اور اگلے برسوں میں یہ 5 سے 6 فیصد جائے گی تو یہ خوش آئند بات ہے لیکن اس سے بجلی کی طلب میں بھی اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے 10 سال کی مدت کے قرضوں کی ادائیگی کے معاملے پر نظر ثانی کریں۔ 1990 میں حبکو پاور پلانٹ لگایا گیا اب 2021 آگیا ہے ۔ 15 یا 20 سال سے کم عرصہ میں قرضہ کی ادائیگی کےمتحمل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بجلی کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر توجہ نہیں دی گئی ، اس کے لئے بھی مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ انہو ں نے کہا کہ گردشی قرضے کی وجہ سے سرمائے کی کمی کا بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ سی پی پی اے نے پہلی مرتبہ ادائیگیوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات متعین کی ہیں۔بہت سے سرکاری بجلی گھر بھی ضرورت کے وقت ہمیں فعال نظر نہیں آئے اور جب ملک کو بجلی کی پیداوار کی ضرورت تھی اس وقت بعض آئی پی پیز کی پیداوار بھی ہمیں دستیاب نہیں تھی۔
اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی کہ اگر ہم 12ماہ ٹیک آر پے کی بنیاد پر ادائیگی کررہے ہوتے ہیں تو پھر ضرورت کے وقت ان سے ہمیں بجلی دستیاب کیوں نہیں ہوتی۔ اس موقع سیکرٹری پاور ڈویژن علی رضا بھٹہ نے نیشنل الیکٹرسٹی پلان 2021 کے مقاصد اور اہداف سے متعلق شرکا کو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ اس پلان کامقصد بجلی کےشعبے میں اہداف کے حصول کے لئے عملدرآمد کا طریقہ کار اور اقدامات کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلہ میں متعلقہ ادارں کو اپنے اہداف اور پالیسی سفارشات پر عملدرآمد کے لئے مدت کے تعین کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں تفویض کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل الیکٹرسٹی پلان کے 3 بڑے اہداف ہیں جن میں سستی توانائی تک رسائی ، انرجی ، سکیورٹی اور پائیدار توانائی کی فراہمی شامل ہے اور اس سے آئندہ 15 سال کے لئے بجلی کے شعبہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔