اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا

187
توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید ، ایک لاکھ روپے جرمانہ
توشہ خانہ کیس

اسلام آباد۔5اگست (اے پی پی):اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی شک وشبے کے بغیرچیئرمین پی ٹی آئی کی بے ایمانی ثابت ہوچکی ہے ‘ملزم نے بے ایمان اور دھوکے باز کے طور پر اپنے اثاثوں کی غلط تفصیلات ظاہر کیں جبکہ شکایت کنندہ ملزم کیخلاف مصدقہ شواہد پیش کرنے میں کامیاب رہا۔

ملزم نے سال 2018، 19 میں اپنی 4 بکریاں توظاہرکیں لیکن بیش قیمتی تحائف چھپاگیاحالانکہ یہ بیش قیمت تحائف ریاست سے خریدے گئے اور ان کو بیچ کر بھاری منافع حاصل کیا گیالہذاچیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں تفصیلی فیصلے میں بتا یاگیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مجاز افسر وقاص ملک کے ذریعے فوجداری کارروائی کی شکایت دائر کی گئی۔

شکایت الیکشن ایکٹ کی سیکشن 167 اور 173 کے تحت دائر کی گئی،عمران احمد نیازی نے شکایت کے نتیجے میں بطور ملزم ٹرائل کا سامنا کیا،شکایت میں ملزم کیخلاف سال 2018 سے 2021 تک اثاثوں کی جھوٹی تفصیلات جمع کرانے کا الزام تھا،شکایت میں الزام تھا کہ ملزم نے سال 2018، 19 اور 20 میں حاصل کیے گئے توشہ خانہ تحائف چھپائے،شکایت میں الزام تھا کہ ملزم نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان جمع کرایا،شکایت کے مطابق ملزم نے دفعہ 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا،الیکشن کمیشن کی جانب سے فوجداری کارروائی کی شکایت 15 دسمبر 2022 کو دائر کی گئی تھی۔

عدالت نے کہا ہے کہ عدالت کے نوٹس جاری کرنے کے باوجود ملزم متعدد سماعتوں پر عدالت میں پیش نہ ہوئے،ملزم کی مسلسل عدم پیشی پر عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے تھے،عدم پیشیوں کے باعث ٹرائل کی رفتار انتہائی سست رہی،ملزم کی جانب سے کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق متعدد درخواستیں بھی دائر کی جاتی رہیں، ملزم کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کیا جاتا رہا۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 10 مئی 2023 کو ملزم پر فرد جرم عائد کی گئی، ملزم کو الزامات پڑھ کر سنائے گئے، ملزم نے فرد جرم کا کوئی جواب نہ دیا، نہ ہی فرد جرم پر دستخط کیے، عدالت نے استغاثہ کو اپنے گواہ اور شواہد پیش کرنے کا حکم دیا،ملزم کے وکلا نے کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹرائل پر حکم امتناع جاری کردیا،4 جولائی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے قابل سماعت ہونے کا معاملہ واپس سیشن عدالت کو بھیجا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ 7 دنوں میں فریقین کو دوبارہ سن کر سیشن کورٹ فیصلہ کرے، انصاف کے تقاضوں کے مطابق ملزم کے وکلا کو دلائل کیلئے متعدد مواقع فراہم کیے گئے،ملزم کے وکلا نے کیس کو التوا کا شکار کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے شروع کردیئے، ملزم کے وکلا نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواستیں دائر کرنا شروع کردیں، دلائل نہ دیئے۔

عدالت نے 8 جولائی 2023 کو صرف استغاثہ کے وکلا کو سن کر کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا، عدالت نے استغاثہ کو ایک بار پھر اپنے گواہان اور شواہد عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی، استغاثہ نے اپنے گواہان وقاص ملک اور مصدق انور کے بیانات ریکارڈ کروائے، عدالت کی جانب سے خواجہ حارث کو ملزم کا نمائندہ مقرر کرکے جرح کے متعدد مواقع دیئے گئے، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے گواہان پر جرح کرنے میں 4 دن لگا دیئے۔

فیصلہ کے مطابق 24 جولائی 2023 چیئرمین پی ٹی آئی عدالت میں پیش ہوئے اور گواہان پر جزوی جرح ہوئی،24 جولائی کو ہی وکیل انتظار پنجوتھا 50 وکلا کے جتھے کو لے کرعدالت آئے، انتظار پنجوتھا اور دیگر وکلا نے نعرے بازی کرکے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تاہم خواجہ حارث نے عدالت سے وکلا کے رویے پر معافی مانگی، عدالت نے درگزر کیا۔ملزم 31 جولائی اور یکم اگست 2023 کو عدالت پیش ہوئے اور 342 کا بیان ریکارڈ کرایا،ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بے گناہ ہیں، الزامات درست نہیں۔یکم اگست کو عدالت نے ملزم سے اپنے دفاع میں گواہان کو 2 اگست کو پیش کرنے کا کہا، 2 اگست کو بیرسٹر گوہر پیش ہوئے اور نجی گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی، الیکشن کمیشن کے وکیل نے گواہان کے کیس سے متعلقہ نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا، عدالت نے دونوں فریقین کو سن کر فراہم کیے گئے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دیا، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کیس کے حتمی دلائل مکمل کیے۔

ملزم کے وکلا نے قابل سماعت ہونے سے متعلق معاملے پر دلائل دیئے نہ ہی ٹرائل میں حتمی دلائل دیئے، ملزم کے وکلا کو بارہا متعدد مواقع فراہم کیے گئے لیکن انہوں نے دلائل دینے سے گریز کیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں ایک سابق وزیر اعظم پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا الزام ہے، الیکشن کمیشن کو اثاثوں کی درست تفصیلات فراہم کرنا ملزم کا فرض تھا، اثاثوں کی تفصیلات کا فارم جمع کرانا ہر رکن پارلیمنٹ کیلئے قانونی طور پر ضروری ہے،

ملزم کو اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرانا تھیں، ملزم کو متعلقہ مالی سال میں اثاثوں کی کسی اور شخص کو منتقلی کے حوالے سے بھی بتانا تھا، ملزم نے سال 2018 سے 2021 تک جمع کرائے گئے اپنے فارم بی کی تصدیق بھی کی، ملزم نے 2018 سے 2021 کے دوران حاصل کیے گئے توشہ خانہ تحائف فارم بی میں ظاہر نہیں کیے۔سال 2018، 19 سے متعلق ملزم نے بتایا کہ اس نے تحائف 30 جون سے پہلے ہی فروخت کردیئے تھے،الیکشن کمیشن کے فارم بی میں تحائف منتقلی کا خانہ موجود ہے،

ملزم کو فروخت تحائف کی تفصیلات لکھنا چاہیے تھیں،ملزم نے تحائف فروخت کرنے کی تفصیلات نہیں لکھیں، لہذا سال 2018، 19 میں غلط تفصیلات جمع کرانے کے مرتکب ہوئے۔ سال 2019، 20 سے متعلق ملزم نے بتایا کہ اس نے تحائف 30 جون سے پہلے ہی کسی تیسرے شخص کو منتقل کردیئے تھے، ملزم کو فارم بی میں منتقل شدہ تحائف کی تفصیلات اور حاصل کرنے والے شخص کی تفصیلات لکھنا چاہیے تھیں، ملزم نے تحائف منتقل کرنے کی تفصیلات نہیں لکھیں، لہذاسال 2019، 20 میں غلط تفصیلات جمع کرانے کے مرتکب ہوئے، سال 2020، 21 سے متعلق ملزم نے بتایا کہ تحائف کی وہ قیمت فارم بی میں لکھی گئی جس پر انہیں حاصل کیا گیا تھا۔سال 2020، 21 میں حاصل کیے گئے تحائف منقولہ اثاثوں کے زمرے میں آتے ہیں،

قیمتی اشیا کے زمرے میں نہیں، فارم بی میں منقولہ اثاثوں کی تفصیلات کا خانہ شامل ہے، قیمتی اشیا کا کوئی کالم موجود نہیں،ملزم نے منقولہ اثاثوں کو قیمتی اشیا کا نام دے کر تحائف کی مالیت اور بھیس بدلنے کی کوشش کی۔ سیشن عدالت نے اپنے تحریری فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ ثابت ہوتا ہے کہ ملزم سال 2020، 21 میں بھی غلط تفصیلات جمع کرانے کے مرتکب ہوئے، سال 2018، 19 میں ملزم نے اپنی 4 بکریاں فارم بی میں لکھیں لیکن بیش قیمتی تحائف کو ظاہر نہ کیا،یہ بیش قیمت تحائف ریاست سے خریدے گئے اور ان کو بیچ کر بھاری منافع حاصل کیا گیا،

کسی شک کے بغیر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ بدنیتی اور بے ایمانی کی بنیاد پر کیا گیا، ملزم نے بے ایمان اور دھوکے باز کے طور پر اپنے اثاثوں کی غلط تفصیلات فارم بی میں ظاہر کیں، شکایت کنندہ ملزم کیخلاف مصدقہ شواہد پیش کرنے میں کامیاب رہا۔شواہد کی نظر میں ملزم کیخلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے سال 2018 سے 2020 کے دوران اثاثوں کی جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں،چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف سے متعلق معلومات میں دھوکے بازی سے کام لیا، کسی بھی شک کے بغیر چیئرمین پی ٹی آئی کی بے ایمانی ثابت ہوچکی ہے۔