چنیوٹ۔ 18 نومبر (اے پی پی):ڈاکٹر صبیح الحسن ڈسٹرکٹ بلڈ سیفٹی آفیسر پنجاب بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے مختلف کالجز میں تھیلیسیمیا آگاہی سیمینار میں طلباء سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد کو منتقل ہوتی ہے،اس مرض میں جزوی طور پر جینیاتی خرابی کی وجہ سے خون کے سرخ خلیات میں پائی جانے والی ” ہیمو گلوبن” کی تشکیل ناقص طریقے سے ہوتی ہے۔
ہیموگلوبن چونکہ آکسیجن کی ترسیل کا اہم ذریعہ ہے اس لئے ناقص ہیموگلوبن کی وجہ سے خون کے سرخ ذرات آکسیجن کی منتقلی صحیح طور پرنہیں کرسکتے نیز یہ جلد ہی تباہی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں اور بچے خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں
انہوں نے کہا کہ تھیلیسیمیامیجر زیادہ خطرناک ہےاس میں انتقال خون ضروری ہوتا ہے لیکن باربار انتقال خون سے ان کے بدن میں فولاد کی زیادتی سے کافی مسائل (مثلا تلی اورجگر کا بڑھ جانا، ہڈیوں میں کجی اوربدنمائی کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔بعض اوقات تلی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور متورم ہوجاتی ہے کہ اسے سرجری کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے،بدن سے فولاد کے اخراج کیلئے دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تھیلیسیمیا مرض میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہوئے نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔
علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے اور یہ ٹیسٹ اس لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ ایسے افراد اپنی ہی طرح اس مرض میں مبتلا کسی دوسرے فرد سے شادی نہ کریں کیونکہ ایسے دو افراد کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد تھیلیسیمیا کبیر میں مبتلا ہوسکتی ہے۔