تین ماہ کے دوران سکھر اور لاڑکانہ میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، حلیم عادل شیخ کی سندھ میں امن امان کی خراب صورتحال پر رپورٹ وفاق کو ارسال

67
profile pic

سکھر۔27مئی (اے پی پی):قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے سندھ میں امن امان کی خراب صورتحال پر رپورٹ وزیر اعظم کو بهجوا دی، رپورٹ میں آئی جی سندھ کو فوری ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد پورے سندھ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی ہے۔تین ماہ کے دوران سکھر اور لاڑکانہ ریجن میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق حلیم عادل شیخ نے سندھ میں امن امان کی خراب صورتحال پر رپورٹ وزیر اعظم کو بهجوا دی ہے،رپورٹ وفاقی وزیر اسد عمر، گورنر سندھ عمران اسماعیل کو بھی بھجوا دی گئی ہے۔

یہ رپورٹ 12 صفحات پر مشتمل ہے جو انہوں نے سندھ میں امن امان کی خراب صورتحال کے بارے میں خودتیارکی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران سکھر اور لاڑکانہ ریجن میں 250 سےزیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ حلیم عادل شیخ نے رپورٹ میں آئی جی سندھ کو فوری طورپر ہٹانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے تین ماہ میں 300 سے زیادہ افراد زخمی ہوچکے ہیں، 70 سے زیادہ افراد اغوا ہوچکے ہیں، 400سے زائد ڈکیتیاں ریکارڈ ہوئی ہیں، یہ ریکارڈ کے مطابق تین ماہ کی تفصیلات ہیں جبکہ حیقیقت میں اس سے زائد جرائم ہوئے ہیں۔

حلیم عادل شیخ نے اپنی رپورٹ میں قبائلی تنازعات کا بھی ذکرکیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چاچڑ قبیلے کے دس افراد کو ڈاکوں نے قتل کر دیا کوئی کاروائی نہیں ہوئی، پولیس مقابلے میں ڈاکوئوں نے پولیس اے پی سی کو راکیٹ لانچر سے نشانہ بنایا، ڈاکوئوں کی فائرنگ سے تین پولیس اہلکار شہید اور زخمی ہوئے تھے، پولیس اے پی سی گاڑی میں گولیاں آر پار ہونا باعث تشویش ہے، نیب و دیگر اداروں سے تحقیقات کرائی جائے گاڑیوں کی خریدار میں کس طرح کرپشن کوئی، ان علاقوں میں قبیلائی جھگڑوں کے باعث سینکڑوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 450 سے زیادہ افراد ابھی تک ان جھگڑوں میں قتل ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد پورے سندھ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی، 2019 کے پولیس آرڈر کے بعد پولیس کا تمام کنٹرول سندھ حکومت کے ماتحت دیا گیا، پیپلزپارٹی کے لوگوں کے کہنے پر پولیس افسران کو لگایا جاتا ہے ۔

ایس ایس پی کی تعیناتی پر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا ہے۔حلیم عادل شیخ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شکارپور سابقہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے جنوری 2020 میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، ڈاکٹر رضوان نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ان ڈاکوئوں کی سرپرستی کون کررہا ہے، ڈاکوؤں کے گروہ کی رپورٹ پیش کرنے کے بعد ، ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو ہٹا دیا گیا تھا ۔ڈاکٹر رضوان کی برطرفی کے بعد مختلف دہشت گردوں کے سربراہ تیغو خان تیغانی کو ایس ایس پی کے ذریعہ امن ایوارڈ دیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرائم پیشہ گروہوں کا مالی وسائل ان کے غیر قانونی عمل سے ہوتا ہے، قبضہ اور کچہ کے علاقوں میں جھیلوں پر قبضے، ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان سمیت دیگر ذرائع آمدن ہیں،کچے کی جھیلیں اور تالاب جو قریب ندیوں سے پانی رکھتے ہیں حکومت کی ملکیت ہیں ،حکومت اگر ان کے زمینوں اور جھیلوں کے قبضے ختم کرا دے تو ان کے ذرائع آمدن کمزور ہوسکتے ہیں، پولیس کو ڈاکوئوں کے خلاف حکمت عملی اور منصوبہ بند سے آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ایس ایس یو ، آر آر ایف اور کمانڈوز جیسے پولیس یونٹ جو اکثر کراچی میں بلاول ہاؤس وغیرہ میں سیکیورٹی کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کو آپریشن کے لئے بھیجا جائے، کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ پکے میں جو ڈاکو موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

انہوں نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اسمبلی میں موجود کافی ایم این ایز ، ایم پی ایز ڈاکوئوں کی سرپرستی کرتے ہیں جن کے نام خفیہ ادارے فراہم کر چکے ہیں ،کچے میں مزید موثر کارروائی کے لئے رینجرز اور پاک فوج کو اختیارات دینے کی بھی ضرورت ہے، فوری طور پر غیر قانونی اسحلہ کی خرید و فروخت کے خلاف کارروائی کی جائے، جس طرح چھوٹو گینگ کا پنجاب میں خاتمہ ہوسکتا ہے اسی طرح یہاں بھی گینگ کا خاتمہ یقینی ہے۔