جامعہ کشمیر میں ہفتہ تقریبات یوم کشمیر کے سلسلہ میں ایک روزہ کانفرنس ، الطاف وانی، اویس بن وصی، ڈاکٹر محمود کا کانفرنس سے خطاب

289

اسلام آباد۔4فروری (اے پی پی):جامعہ کشمیر میں ہفتہ تقریبات یوم کشمیر کے سلسلہ میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (کے آئی آئی آر) کے تعاون سے ایک روزہ کانفرنس بعنوان ”کثیرالقطبی دنیا میں مسئلہ کشمیر اور بھارت کا غیرقانونی قبضہ “ منعقد ہوئی ۔

جامعہ کشمیر کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق یہ مشترکہ کانفرنس کشمیر سٹڈیزآڈیٹورم“ چہلہ کیمپس میں ہو، ئی جس میں کشمیری رہنمااور انسانی حقوق پر کام کرنے والے معروف کارکن،چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی،اسسٹنٹ پروفیسر اوررفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر اویس بن وصی،سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کشمیر ڈاکٹر محمود حسین، کوارڈینیٹر شعبہ بین الاقوامی تعلقات صبا اسرارفیکلٹی ممبران عامر حبیب،مدیحہ شکیل اور دیگر نے خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے شرکا کی توجہ 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر کے منظر نامے پر مرکوز کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے طلبا کوجموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت بزورِ طاقت کشمیریوں کے پیدائشی حق خودارادیت کو دبانے کے لیے ظلم و استبداد کے نئے سے نئے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافی، انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکن حتی کہ خواتین تک بھارتی مظالم سے محفوظ نہیں۔چیئرمین کے آئی آئی آر نے کہا کہ بھارت نہ صرف کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتا ہے بلکہ وہ کشمیر کے تشخص اور اس کی جداگانہ حیثیت کو بھی ختم کرنے کے درپے ہے۔اسسٹنٹ پروفیسر اور رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر اویس بن وصی نے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر اور کشمیر تنازعہ پر تفصیلی لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی منظرنامے میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، عالمی اور علاقائی تنازعے طاقت کے مراکز میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔اپنے اختتامی کلمات میں سربراہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر محمود حسین نے دلیل دی کہ موجودہ صورتحال پاکستان کے لیے مواقع اور چیلنجز دونوں لے کر آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی آر آئی کے اعلان کے بعد سے کشمیر کے حوالے سے چین کا سرکاری نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ اسی طرح اس نے ہندوستان کے امریکی بلاک میں داخل ہونے کے بعد روس کی پاکستان کے لیے دلچسپی کے امکان کو روشن کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور کشمیر کے کاز کو آگے لائے۔کانفرنس کے دوران شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طلبا نے اپنے تین مقالے بھی پیش کئے۔ساتویں سمسٹر کی طلبافاطمہ محمود اور اظہر زیب عباسی نے کشمیر کے آبی وسائل پر ہند پاک تنازعہ اوراس کے علاقائی امن و استحکام کے لیے مضمرات پر اپنے مقالے پیش کیے۔محققین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا خطہ پاکستان اور بھارت کے لیے بڑی اقتصادی اہمیت کا حامل ہے، چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور آبی ذخائر کی بہت اہمیت ہے۔

جہلم اور چناب پر ڈیم بنانے اور ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس لگانے کے بھارتی اقدامات کشمیر سے بہنے والے آبی وسائل کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔انہوں نے سندھ طاس معاہدے پر بھارت کی جانب سے پاکستان کو بھیجے گئے حالیہ نوٹس پر بھی روشنی ڈالی۔ طلبا نے اپنے مقالوں میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مداخلت کرے اور بھارت کو آبی دہشت گردی سے باز رکھے۔طالب علم معیز خالد نے اپنی پینٹنگ کے ذریعے بھارتی قابض افواج کے مظالم کو اجاگر کیا۔ ساتویں سمسٹر کے ابوہریرہ نے اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کی مزاحمت کی تحریک کو خراج تحسین پیش کیا۔آخر میں سوال و جواب کا سیشن اور طلباء میں ان کی شرکت پر سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔