اسلام آباد۔29اگست (اے پی پی):وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت آئندہ پانچ سال کے لیے ایک جامع ٹیکسٹائل و ملبوسات پالیسی اور قومی صنعتی پالیسی کو حتمی شکل دے رہی ہےجس کا مقصد پاکستان کی صنعت کو علاقائی طور پر مسابقتی بنانا، تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنا اور برآمدات میں پائیدار اضافہ یقینی بنانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو وزارت تجارت میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں چیئرمین پاکستان ٹیکسٹائل کونسل عامر فیاض شیخ، چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کامران ارشد، فضل کلاتھ کے سی ای او رحمان نسیم اور اپٹما کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شاہد ستار نے شرکت کی، جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزیر تجارت نے کہا کہ ٹیکسٹائل و ملبوسات پالیسی اس انداز میں تشکیل دی جا رہی ہے کہ پیداواری لاگت میں کمی ہو، وسائل کے بہتر استعمال اور عمل کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جائے، مصنوعات و منڈیوں میں تنوع لایا جائے اور پاکستان کا عالمی منڈی میں حصہ بڑھایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پائیدار ترقی کے لیے برآمدات پر انحصار کرنا ہوگا اور حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ تمام فیصلے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار حکومت اور صنعت برآمدات میں اضافے کے عزم پر ایک صفحے پر ہیں۔انہوں نے علاقائی حریف ممالک کی پالیسیوں کا تجزیہ کرنے کی صنعت کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور ڈھاکہ کے اپنے حالیہ دورے کے مشاہدات بھی بتائے جہاں انہوں نے بنگلہ دیش کی صنعتی ترقی اور ریڈی میڈ گارمنٹس کی برآمدات میں شاندار کامیابیوں کو قریب سے دیکھا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ نئی صنعتی پالیسی چند مخصوص شعبوں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ وسیع صنعتی منظرنامے کا احاطہ کرے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پالیسی میں توانائی، ٹیرف و ٹیکسیشن، مالی معاونت، اکنامک زونز سمیت دیگر شعبوں کو شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گرین فیلڈ منصوبوں کی سہولت، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت زمین لیز ماڈل اور سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو سہولت بھی اس پالیسی کا حصہ ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت یہ اقدام ملک بھر میں صنعتی ترقی میں نئی جان ڈالے گا۔اپٹما کے وفد نے حکومت سے درخواست کی کہ ساختی رکاوٹیں ختم کی جائیں اور ایسا سازگار ماحول فراہم کیا جائے جو عالمی منڈی میں برآمدی شعبوں کی مسابقت کو متاثر نہ کرے۔