کراچی۔30جنوری (اے پی پی):سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ جب چوردروازے سے کالابلدیاتی قانون سندھ اسمبلی میں لایاگیا تو ہم نے اسے پہلے دن ہی مسترد کردیا تھا ،
ہم نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی ترامیم اور سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کو مسترد کیا تھا ، اس ایکٹ کے خلاف پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں جاچکی ہے، گورنر سندھ نے بھی ان ترامیم کو رد کیا تھا،بلدیاتی قانون آئین کے آرٹیکل 140 اے کے منافی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ دو دن سے بغلیں بجائی جارہی ہیں کہ معاہدہ طے پا گیا ہے ،جب ہمارے اراکین نے سندھ اسمبلی کے گیٹ پر احتجاج کیا تھا ان کی اسمبلی میں انٹری پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ،
اسمبلی گیٹ پر مظاہرین آتے ہیں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے ،لیکن یہاں بھینسیں باندھی گئیں، سڑکیں بند کی گئیں لیکن کچھ نہیں ہوا ، معاہدہ کے مطابق کچھ ادارے واپس کئے گئے ہیں وہ پہلے سے 2013 کے ایکٹ میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ2013 ایکٹ کا سیکشن 74 ابھی بھی موجود ہے جب تک وزیر اعلیٰ سندھ لوکل گورنمنٹ کے پاس سیکشن 74 کا اختیار ہے تو میئر کو کوئی اختیار نہیں حاصل ہوگا۔
سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں 21 شقیں تین شیڈول عوام دشمن اورآئین کی کھلی خلاف ورزی کے طور پر شامل کئے گئے ہیں لیکن جماعت اسلامی نے ان تمام غیر آئینی سیکشن پر کوئی معاہدہ نہیں کیا ، آرٹیکل 76 میں کوئی اختیار نہیں دیا گیا ، ایس ایل جی اے سیکشن 87,88کے تحت صوبائی حکومت مقامی حکومتوں پر کنٹرول رکھے گی، سیکشن 92 کے تحت صوبائی حکومت منتخب کونسل کو معطل کر سکے گی ،
یہ شق بھی ابھی تک موجود ہے ،اس معاہدے میں اس پر بھی بات نہیں ہوئی ،سیکشن 98میں صوبائی حکومت نے ٹیکس لگانے نہ لگانے کا اختیار بھی خود کے پاس رکھا ہے ۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت منتخب مقامی حکومتو ں کو صوبائی حکومت افسران کے ذریعے کنٹرول کرنے کا اختیار رکھتی ہے جو عوام کے سیاسی ، مالی ، اور انتظامی اختیارات نہ دینے کے مترادف ہے ۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=292992