فیصل آباد۔ 29 فروری (اے پی پی):جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ تحقیق کے دھارے کا رخ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی زراعت اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں پر قابو پانے والی ٹیکنالوجی کی طرف کرنا ہو گا تاکہ جدید سائنسی ٹیکنالوجیز کو کاشتکاروں تک پہنچا کر فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست زراعت کو فروغ دیا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ برائے ”کلائیمیٹ سمارٹ زرعی تحقیق“ سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ گندم اور چاول کراپنگ سسٹم کے تحت ملک کا 60فیصد زرعی رقبہ ان دونوں اجناس پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 22ملین ایکڑ پر گندم جبکہ 9ملین ایکڑ پر چاول کاشت کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاول ماحول کو نقصان پہنچانے والی میتھین گیس کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کیلئے ہمیں جدید ٹیکنالوجی پر کام کر کے اس مسئلے پر قابو پانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں زرعی پیداوار کو بڑی بری طرح متاثر کر رہی ہیں گزشتہ رات گوادر میں موسلادھار بارش سے سیلاب برپا ہوا جس سے بھاری نقصان پہنچا ہے یہ ساری تباہیاں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2022تک فروری اور مارچ کے مہینے میں زیادہ گرمی کی وجہ سے گندم کو نقصان پہنچا تھا تاہم پچھلے سال بہتر موسم کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں 2ملین ٹن اضافہ ہوا ہے اور اس سال بھی بہتر پیداوار کی توقع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2004میں فلوریڈا میں بھی شدید سیلاب آیا تھا اور 2007جون مسقط میں 80ملی میٹر اوسط بارش کے مقابلے میں 800ملی میٹر بارش ہوئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پرنسپل اکانومسٹ ڈاکٹر تکاشی یامنو نے کہا کہ 2022میں پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے 0.25ملی ہیکٹر اور سندھ میں 0.8ملی ہیکٹر رقبے پر فصلات تباہی کا شکار ہوئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی تجارت میں زمین سے گیسوں استعمال کے اخراج کو کم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم کاربن چاول کے مواقع موجود ہیں۔ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی سینئر نیچرل ریسورس سپیشلسٹ نوریکو ساتو نے زرعی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ورکشاپ موسمیاتی سمارٹ ایگریکلچر کے مقصد کے لیے کوششوں کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر جعفر جسکانی نے زراعت پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے معاشرتی سطح پر شعور بیدار کرنا ہو گایونیورسٹی آف فلپائن سے پروفیسر ڈاکٹر روبن نیٹو نے کہا کہ متبادل گیلا اور خشک کرنے (اے ڈبلیو ڈی) طریقہ کار کے ذریعے پانی کی 40 فیصد بچت کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہری آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے، دیکھ بھال اور آپریشن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالوکیل نے کہا کہ وہ پنجاب میں اے ڈبلیو ڈی طریقہ کار کو پائلٹ کر رہے ہیں اور گیس کے اخراج اور پانی کی پیداواری صلاحیت پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔تقریب سے ڈاکٹر انجم منیر، ڈاکٹر رضوانہ مقبول، ڈاکٹر ندیم اختر، ڈاکٹر ثنااللہ، ڈاکٹر ثاقب اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔