اسلام آباد ۔ 23 نومبر (اے پی پی)پولیس اصلاحاتی کمیٹی کا اجلاس ہفتہ کو یہاں سپریم کورٹ پاکستان برانچ رجسٹری لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس آف پاکستان / چیئرمین قانون و انصاف کمیشن پاکستان نے کی۔ اجلاس میں سپریم کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد’ تمام صوبوں بشمول اسلام آباد گلگت بلتستان’ آزاد جموں و کشمیر کے حاضر سروس انسپکٹر جنرلز پولیس’ ڈاکٹر اعجاز حسین شاہ’ ڈائریکٹر جنرل قومی پولیس بیورو اور سابقہ انسپکٹر جنرل پولیس افضل علی شگری (کنوینر)’ ڈاکٹر شعیب سڈل’ طارق کھوسہ’ اسد جہانگیر خان’ شوکت جاوید اور طارق پرویز نے شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد ایجنڈا نکات جن میں عوامی شکایات کے ازالے کا طریقہ کار’ تفتیش کے معیار میں بہتری لانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور ان کے نتائج کا جائزہ’ قومی پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کو تفویض کردہ فرائض اور پولیس اصلاحاتی کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائرہ شامل تھا پر بحث کی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے افتتاحی کلمات میں اجلاس کے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور پولیس اصلاحاتی کمیٹی کی ہدایات پر کامیاب عملدرآمد پر محکمہ پولیس کی کارکردگی پر اطیمنان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے پولیس اصلاحاتی کمیٹی کے اراکین کو ایجنڈے کے نکات کے مطابق کارکردگی کی تفصیلات پیش کرنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر محمد رحیم اعوان سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن نے اجلاس کے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور اجلاس کے ایجنڈے کے نکات کا طائرانہ جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عوامی شکایات کے ازالے کے لیے قائم مراکز میں یکم جنوری 2019 میں سے 15 نومبر 2019ء تک کے عرصے میں 119423 شکایات کو نمٹایا۔ انہوں نے غفلت کے مرتکب پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائی کے اعداد و شمار بھی پیش کیے جس کے مطابق متذکرہ بالا مدت میں غفلت کے مرتکب 157 اہلکاران و افسران کو سخت اور 698 کو معمولی محکمانہ سزائیں دی گئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عدم اندراج ایف آئی آر کے متعلق تقریباً 29452 شکایات درج ہوئیں جن میں سے 28070کو نمٹا دیا گیا جبکہ 2302 شکایات ابھی زیر غور ہیں۔ شکایات مراکز کی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن نے ہائی کورٹس میں دائر کردہ آئینی درخواستوں زیر دفعہ 22 اے اور 22بی کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ اعداد وشمار سے یہ واضح ہوا کہ 2018ء میں 18857 رٹ درخواستیں دائر ہوئیں جبکہ اسی عرصہ 2019ء میں 15951 رٹ درخواستیں ہائی کورٹ میں دائر ہوئیں جس سے یہ عیاں ہوا کہ عوامی مراکز شکایات کی مؤثر کارکردگی کی بدولت عدالت عالیہ میں دائر رٹ درخواستوں کے کام میں 15.4 فیصد کمی آئی ہے۔ ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے ضلعی عدلیہ کے اعدادوشمار بھی پیش کیے کہ یکم جنوری 2018ء سے 15نومبر 2018ء تک تقریباً 237873 درخواستیں زیر دفعہ 22A اور 22B ضابطہ فوجداری دائر کی گئی تھیں جبکہ 2019ء میں اسی دورانیہ میں تقریباً 166056 درخواستیں دائر کی گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضلعی عدالتوں میں ایسی درخواستوں کی دائری میں تقریبا 30.2 فیصد تک کمی آئی ہے۔ متذکرہ بالا تفصیلات سے واضح ہے کہ عوام نے چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے قائم کردہ پولیس کی شکایت مراکز پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے کمیٹی کو پولیس کے شکایتی مراکز کی اُن کے قیام سے اب تک کی (01-01-2019 سے 15-11-2019) تک کی کارکردگی اور دیگر تفصیلات بشمول غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف کی جانے والی انضباطی کارروائیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو پناب پولیس کی کارکردگی کے متعلق بتایا کہ متذکرہ بالا عرصے میں تقریباً 331 شکایات بے گناہ افراد کی گرفتاری کے متعلق وصول ہوئیں جن میں سے 320 کا فیصلہ کردیا گیا اور 11 ابھی بھی زیر التوا ہیں جبکہ تقریباً 383 شکایات منسوخی ایف آئی آر کے متعلق آئی تھیں جن میں سے 362 کا فیصلہ کیا جا چکا ہے جبکہ 21 زیر التواء ہیں’ 175 شکایات بدعنوانی کے متعلق زیر التواء تھیں جن میں سے 173 نمٹا دی گئی ہیں اور صرف 2 زیر التواء ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے اور اس کی کارکردگی کو بہتر اور شفاف بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب پولیس کے اس عزم پر امید کا اظہار کیا کہ وہ پنجاب پولیس کی کارکردگی کو معیاری بنانے کے لیے بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔ تفتیش کے عمل میں بہتری لانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے ضمن میں پولیس اصلاحاتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں تمام صوبوں کے حاضر سروس انسپکٹر جنرل پولیس بشمول اسلام آباد’ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس نے آگاہ کیا تھا کہ پولیس اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات کے تحت ضلعی تشخیصی کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں’ آج کے اجلاس میں تمام انسپکٹر جنرل کی جانب سے مذکورہ کمیٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا گیا۔ جس کے تحت تشخیصی کمیٹی کے اراکین نے فوجداری مقدمات کا جائزہ لے کر بریت کی وجوہات کی تفصیلات پیش کی تھیں۔ چیف جسٹس آف وپاکستان / چیئرمین قانون و انصاف کمیشن نے بتایا کہ ریٹائرڈ سیشن جج’ ایس پی اور سینئر وکلاء پر مشتمل تین سے پانچ رکنی تشخیصی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ان ضلعی تشخیصی کمیٹیوں کو قتل کے مقدمات میں جاری کردہ فیصلوں کو پرکھنے بریت اور ضمانت کے مقدمات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پولیس اصلاحاتی کمیٹی کی کوششوں سے دو اہم سنگ میل یعنی شکایات کے ازالے کا نظام اور ضلعی تشخیصی کمیٹیوں کے قیام پر عملدرآمد ہوگیا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے زور دیا کہ آئین کی روح کے مطابق کسی بے گناہ شخص کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہ کہ آئین ہر شہری کی شخصی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور کسی بھی شہری کو قانونی راستہ اختیار کیے بغیر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پولیس اس امر کو یقینی بنائے کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو اس کے آئینی حقسے محروم نہ کیا جائے اور غیر قانونی گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات کی آڑ میں بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں کی سختی سے حوصلہ شکنی اور روک تھام کی جانی چاہئے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جس طرح ایک بے گناہ کی آزادی کا تحفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ بعین اسی طرح گناہ گار کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دینا بھی اداروں کی ذمہ داری ہے جس سے جرائم کی روک تھام اور معاشرے میں امن و امان کے قیام اور شہریوں کو جرائم پیشہ افراد سے محفوظ رکھنے میںمدد ملے گی۔ چیف جسٹس نے مزید زور دیا کہ ان گواہان کو جو عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے کے عمل میں ملوث ہیں یہ پیغام جانا چاہئے کہ ان کی جھوٹی گواہی کی بناء پر کوئی بے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں جائے گا اور وہ اپنے غیرقانونی عمل کی سزا بھگتیں گے عدالت بھی ان کے اس عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد سینئر ترین جج سپریم کورٹ آف پاکستان نے فرمایا کہ محکمہ پولیس اور اس کے تفتیشی افسران کیلئے عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ فیصلہ جات سے آگاہی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سینئر جج نے تاکید کی کہ قانون و انصاف کمیشن کے شعبہ ریسرچ اور سپریم کورٹ کے ریسرچ سیل کے تحقیقی کام تک رسائی محکمہ پولیس کو باہم پہنچائی جائے تاکہ پولیس اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات سے حرف بحرف آگاہی حاصل کرسکے۔ سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن نے چیف جسٹس پاکستان/چیئرمین قانون و انصاف کمیشن کو یقین دلایا کہ DACs کی رپورٹ کی روشنی میں قانون و انصاف کمیشن ججوں، وکلاء پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسران کی تربیت کیلئے ایک علیحدہ بینچ بک (ہدایتی کتابچہ) مرتب کرے گا تاکہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے بریت اور ضمانتوں سے متعلق فیصلوں سے بروقت آگاہی حاصل کرسکیں اور یقین دلایا کہ یہ عمل اس ضمن میں اہم کردار ادا کرے گا۔پولیس اصلاحاتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں یہ طے پایا تھا کہ قومی پولیس اوربیورو ایف آئی آر کے درست اور اختصار سے اندراج، غیرضروری گرفتاری اور جھوٹی گواہی کے مسائل کے حل کیلئے پورے ملک کیلئے یکساں لائحہ عمل تجویز کرے گا لہذا سیکرٹری قانون و انصاف کمیشن ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے ڈاکٹر اعجاز حسین شاہ ڈائریکٹر جنرل قومی پولیس بیورو کو دعوت دی کہ وہ تفویض کردہ مذکورہ معاملے کے متعلق آگاہی دیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسین شاہ نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پولیس کے تمام محکموں سے مشاورت کے بعد ہدایات نامہ مرتب کرکے سینئر پولیس افسران کی سربراہی میں سختی سے عملدرآمد کیلئے متعلقہ افسران کو جاری کردیا گیا ہے جس میں ایف آئی آر کے مندرجات کو آسان بنانے کی شق شامل کی گئی تاکہ تفتیش کے عمل کو شفاف بنایا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی گرفتاری بغیر مناسب تفتیش کے عمل میں نہ لائی جائے۔ مزید برآں اس بات کی بھی تسلی کی جائے کہ صفحہ مثل پر تسلی بخش شہادت موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پولیس اصلاحاتی کمیٹی کی ان کوششوں، جذبے اور لگن کی بدولت پولیس اصلاحات کے عمل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے اور محکمہ پولیس پر عام عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔چیف جسٹس نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان تمام کوششوں کے نتیجے میں پولیس کا شعبہ مزید قابل محاسبہ، جوابدہ اور عوام دوست بن جائے گا۔ انہوں نے فوجداری نظام انصاف کی موثریت میں اضافے کیلئے نظام کار وضع کرنے اور عدلیہ پر ہزاروں مقدمات کے غیرضروری دبائو کو کم کرنے پر پولیس اصلاحاتی کمیٹی اور قانون و انصاف کمیشن کے افسران و ملازمین کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ سستا اور فوری انصاف ہر پاکستانی شہری کا حق ہے اور پولیس شکایات مراکز کا قیام اس حق کے حصول کی طرف اہم قدم ہے امید ہے کہ پولیس لوگوں کو ان مراکز سے استفادہ کرنے کیلئے تمام سہولتیں اور آسانیاں مہیا کرے گی۔