اسلام آباد۔12جولائی (اے پی پی):وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لئے سیاستدانوں کو عوام کے لئے مثال قائم کرنا ہوگی، موروثی سیاست کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں پر عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے، سیاسی مفادات کے لئے طلباء کے مستقبل سے کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کی تعلیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، امتحانات کا فیصلہ تمام وفاقی اکائیوں نے مل کر کیا تھا، اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب پر پیر کو قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وفاقی وزیر نے کہا کہ خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں 72 سالہ تاریخ کا گہرا تجزیہ پیش کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کالونیل ریاستوں مبں بعض ادارے کمزور اور بعض طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ فطری بات ہے۔ اس کی وجہ سے ایسے معاشروں میں آزادی کے بعد بیورو کریسی اور ملٹری نے زیادہ اختیارات لئے۔
خواجہ آصف کی یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو سیاستدانوں نے مضبوط کیا ہے اور سیاستدانوں نے اپنے لئے جگہ بنانے کے لئے سمجھوتے کئے ہیں تاہم سیاستدانوں نے کارکردگی سے اپنی ساکھ بنانی ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کی کارکردگی کمزور رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ تیس تیس سال تک حکومتیں کرنے کے باوجود عوامی مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ عوام نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح موٹر سائیکلوں پر آنے والے مرسڈیز میں بیٹھ کر گئے، جن کے پاس ذاتی مکان نہیں تھا وہ بیرون ممالک محلات بنانے لگے، اس سے سیاستدانوں کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں ہوا ہے، سیاستدانوں کو پہلے عوام کے لئے مثال بننا چاہیے، اگر سیاستدان عوام کی خواہشات اور امنگوں کے لئے آئے ہیں اور اس کی بجائے وہ اپنی تجوریاں بھرتے رہیں تو اس سے ہمارا تاثر کیا بنے گا۔ اس لئے تجزیہ کرتے وقت بے لاگ تجزیہ کرنا چاہیے۔
اگر حقائق اور مفاہمت کمیشن کی طرف جانا ہے تو ہمیں حقائق قوم کو بتانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کا غیر متنازعہ ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی عمل کو اشرافیہ نے اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ کیا سیاستدانوں میں اشرافیہ نہیں ہے، کیا غریب ورکر اس ایوان کا رکن بن سکتا ہے؟ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو کیا اس میں نئے لوگوں کی گنجائش موجود ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں میں لیڈر شپ بھی وراثتی ہے، یہ صرف ہمارا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور تیسری دنیا کی ایک حقیقت ہے۔
عوام کو نظر آتا ہے کہ آج یہ لیڈر ہے، کل ان کے بیٹے ، نواسے اور رشتہ دار اقتدار میں آئیں گے۔ اس سے سیاست اور سیاسی عمل پر لوگوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ ہمیں ایشوز اور عوام کے مفاد کی سیاست کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے تعلیم پر اثرات مرتب ہوئے، پچھلے سال ساری اکائیوں،جس میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی شامل ہے، کے وزراء تعلیم نے مل کر فیصلہ کیا کہ اگلے سال ہم نے امتحان لینا ہے کیونکہ امتحانات طلباء کی صلاحیت جانچنے کا بہترین طریقہ ہے۔
پچھلے سال ہم نے طلباء کو اس لئے پروموٹ کیا کیونکہ دسویں اور بارہویں جماعت کے طلباء ایک ایک سال کا امتحان دے چکے تھے۔ کوویڈ کی وجہ سے پچھلے سال سارے سکول زیادہ عرصے تک بند رہے جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم و تدریس اس طریقے سے نہیں پہنچی جس طرح پہنچنی چاہیے تھی۔ اس تناظر میں بین الصوبائی وزراء تعلیم کی کانفرنس میں بعض فیصلے ہوئے جس کے تحت نصاب کو چالیس فیصد تک کیا گیا۔ امتحانات کی تاریخوں کو آگے کیا گیا، پہلے امتحانات کو مئی تک ملتوی کیا گیا، اس کے بعد اسے جولائی میں کرنے کا اعلان ہوا تاکہ بچوں کو تیاری کے لئے زیادہ وقت مل سکے۔
میٹرک کے طلباء کے لئے آٹھ مضامین میں سے چار جبکہ ایف اے ایف ایس سی کے طلباء و طالبات کے لئے 7 مضامین میں سے 3 مضامین میں امتحانات لینے کا فیصلہ ہوا۔ سلیبس کو بھی کم کیا گیا۔ مجموعی طور پر امتحانات میں تین ماہ کی توسیع کی گئی۔ ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے بعد یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلے شروع ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے اس فیصلے کا اکثریتی طلباء نے خیرمقدم کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا، سوائے ان چند بچوں کے، جن کا پڑھنے کا ارادہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے، مجھے افسوس ہے کہ سستی شہرت اور سیاست کے لئے یہ سب کیا گیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بلوچستان میں امتحانات ہو چکے ہیں، سندھ، خیبرپختونخوا، وفاق اور آزاد کشمیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
ملک میں 30 بورڈز موجود ہیں، وفاقی حکومت کے تحت ایک بورڈ ہے، باقی بورڈز صوبوں کے پاس ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو امتحانات نہ لینے کا حکم ہم نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سارے فیصلے مل کر اور سیاست سے ہٹ کر کئے گئے، مگر اس کے باوجود اس ایوان میں مزید وقت مانگنے کی بات کی گئی ہے۔ بچوں سے سیاسی مقاصد کے لئے تالیاں بجوانے کے اس طرز عمل کی میں مذمت کرتا ہوں۔ میرے بارے میں کہا گیا کہ میں بھاگ گیا ہوں اور اشتہار دینا چاہیے، اشتہار ان لوگوں کے بارے میں دینا چاہیے جو واقعی بھاگ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 95 فیصد بچے امتحانات دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ خدارا اس ایشو پر سیاست نہ کی جائے اور کوویڈ کی وجہ سے جو نظام بنایا گیا ہے اور جو فیصلے کئے گئے ہیں اس کو چلنے دینا چاہیے۔