جنوبی کوریا ، حزبِ اختلاف نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرنے پر صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرا دی

109
جنوبی کوریا ، حزبِ اختلاف نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرنے پر صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرا دی

سیئول ۔4دسمبر (اے پی پی):جنوبی کوریا میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرنے پر صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرا دی ہے۔وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق یہ تحریک صدر یون سک یو ل کی طرف سے ایک روز قبل پر ملک میں مارشل لا لگانے کے اعلان کے بعد ایوان میں جمع کرائی گئی ۔

ملک میں سیاسی و عوامی احتجاج کے بعد صدر نے مارشل لا کو منسوخ کر دیا تھا جبکہ ملک کی پارلیمنٹ نے بھی ووٹنگ کے ذریعے صدر کے نافذ کردہ مارشل لا کو منسوخ کر دیا تھا۔جنوبی کوریا میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سمیت پانچ دیگر جماعتوں نے بدھ کو مشترکہ طور پر صدر کے مواخذے کی تحریک ایوان میں جمع کرائی جس پر ووٹنگ جمعے تک متوقع ہے۔

جنوبی کوریا کے صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق صدر کے اعلیٰ ترین مشیروں اور سیکرٹریز نے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے جب کہ صدر کی طے شدہ مصروفیات معطل کر دی گئی ہیں۔صدر یون سک یول نے منگل کی شب ٹیلی ویژن پر جاری اپنے خطاب میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ آئین کے تحفظ کے لیے ان کے پاس اس اقدام کے سوا کوئی چاہ نہیں تھا۔انہوں نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے لئے پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔

قوم سے خطاب میں صدر یون نے اپوزیشن پر پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔صدر کے مارشل لا لگانے کے ساتھ ہی ملک کی فوج متحرک ہوئی اور اس نے پارلیمان کی عمارت کا گھیراؤ شروع کر لیا تھا۔ اس دوران مختلف مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں سے اپوزیشن کے حامی مظاہرین کے درمیان مدبھیڑ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے اعلان کے فوری بعد پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔

بعد ازاں 300 رکنی پارلیمان میں 190 ارکان نے مارشل لا کے خاتمے کی حمایت میں ووٹ دیا جن میں ڈیڑھ درجن حکومتی ارکان بھی شامل تھے۔جنوبی کوریا کے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ذریعے مارشل لا ختم کیا جا سکتا ہے۔پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے بعد وہاں تعینات فوجی دستے واپس چلے گئے جس کے بعد بدھ کی صبح بڑی تعداد میں شہری پارلیمنٹ کی عمارت کے پاس جمع ہو گئے اور انہوں نےملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرنے پر صدر یون سک یول کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے مطالبہ کیا کہ صدر فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوں ورنہ ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔پارٹی نے مارشل لا کے نفاذ کو ملکی آئین کی خلاف ورزی قرارد یا۔ جنوبی کوریا کی پیپل پاور پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہن نے بھی صدر کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

اسمبلی میں مواخذے کی کارروائی ہونے کی صورت میں صدر کے اختیارات اس وقت تک معطل ہو جائیں گے جب تک ملک کی آئینی عدالت ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔ مواخذے کے بعد صدر کے اختیارات معطل ہونے کی صورت میں جنوبی کوریا میں حکومت میں صدر کے بعد دوسری اہم اور طاقت ور شخصیت وزیرِ اعظم ہان ڈک سو کو تمام اختیارات منتقل ہو جائیں گے۔

جنوبی کوریا کے آئین کے مطابق صدر کو مارشل لا لگانے کا اختیار حاصل ہے البتہ اس کے لیے لازم ہے کہ ملک کو کسی جنگ یا جنگی جیسی صورتِ حال کا سامنا ہو یا ملک میں حالات اس طرح کے ہو جائیں کہ ہنگامی حالات نافذ کرنے کی ضرورت ہو۔صدر کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کے کے لیے فوج استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی، اجتماع کے حق سمیت دیگر حقوق معطل کر دیے جاتے ہیں۔