اسلام آباد۔24نومبر (اے پی پی):وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ جنگ زدہ ملک افغانستان پر مالی پابندیاں بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کی امدادی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں، عالمی برادری کو انسانی تباہی کے دہانے پر موجود 35 ملین سے زیادہ افغان شہریوں کو ریلیف اور مدد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ سی این این کو اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سب کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں کس قسم کی انسانی تباہی کا سامنا ہونے جا رہا ہے۔
ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 23 ملین افغان اس موسم سرما میں خوراک کی شدید قلت کا شکار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ادارے یہ بھی رپورٹ کر رہے ہیں کہ افغان خواتین گھریلو استعمال کی اشیاء خریدنے کے لیے اپنے بچوں کو فروخت کر رہی ہیں، ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کے آس پاس کہیں ایسا ہو رہا ہو تو اس کا کیا ردعمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیاست سے بالاتر ہونا چاہئے، اس وقت دنیا کو 35 سے 40 ملین افغانوں کی خاطر امداد پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جنہیں واقعی مشکلات کا سامنا ہے، اس حوالے سے پاکستان جو کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امیر ملک نہیں ہے لیکن اس نے تقریباً 30 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے اور افغانستان کو نجی عطیات بھی دیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیوں بین الاقوامی انسانی تنظیموں کو افغانستان میں رقم لانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے کہ صحت کے عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مدد فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک اور دیگر دنیا کی جانب سے انسانی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے تاہم وہاں پیسہ نہ پہنچنے کی وجہ بینکنگ چینلز ہیں، اس حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں جنہوں نے بینکوں کو بہت محتاط کر دیا ہے، اس لیے اقوام متحدہ، ڈبلیو ایف پی، آئی سی آر سی کو بھی اپنے بینک اکاؤنٹس چلانے کی اجازت نہیں دی جا رہی کہ وہ اپنا پیسہ افغانستان میں لے جائیں، چیزیں خریدیں اور افغانوں کو دیں جو ممکنہ طور پر اس موسم سرما میں سنگین صورتحال کا سامنا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ انسانی امداد کو پہلے ہی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے یا طالبان کی حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم بین الاقوامی تنظیموں کو جائے گی جو براہ راست اوسط افغان عورت اور مرد کو کھانا کھلانے اور ان کی مدد کرنے جا رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان عوام کی سہولت کے لئے فضائی اور زمینی پل کی سہولت فراہم کی ہے، پاکستان نے پریشان حال افغانوں کے انخلاء میں مدد کی۔ ہم نے امریکہ سمیت 42 سے زیادہ قومیتوں کے 53,000 افراد کے انخلاء میں مدد فراہم کی۔
ڈاکٹر معید نے مزید کہا کہ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی میزبانی کی چار دہائیوں کی تاریخ ہے، افغانستان میں عدم استحکام کا اثر پاکستان میں آیا کیونکہ اس کی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ 1,600 میل لمبی سرحد ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تقریباً 25,000-35,000 افغان شہری روزانہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں، اگر پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہوا تو پاکستان پر اس کا فوری اثر آئے گا جبکہ پاکستان میں پچھلی چار دہائیوں سے پہلے ہی 40 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، ہمیں مزید انسانی مصائب کو روکنا ہے۔
عبوری افغان حکومت سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے افغانستان کے ساتھ رسمی تعلقات ہیں، پاکستان نے مسلسل علاقائی سفارت کاری کی قیادت کی ہے، ہمیں آگے بڑھنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان وفود کے حالیہ دوروں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے تین مسائل ہیں، ایک انسانی امداد اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، اس حوالے پاکستان جو کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے۔ دوسرا، ہماری افغانستان کے ساتھ 1,600 میل کی سرحد ہے اور بارڈر مینجمنٹ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گردوں اور ٹی ٹی پی کے سرگرم ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں، بھارت اور افغان انٹیلی جنس ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے تھے اور ہم اس معاملے پر افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان افغان حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ وہی کرے جو دنیا انسانی حقوق، شمولیت اور اپنی سرزمین کے دہشت گردی کے لئے استعمال کو روکنے کو یقینی بنانے کے لیے کہہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان وفد جب پاکستان آیا تو پہلی بار پاکستان، چین، روس اور امریکہ کی میٹنگ ہوئی اور امریکہ اور دیگر نے اس وفد سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی پاکستان آتا ہے لیکن ہمارا کردار محض سہولت فراہم کرنا اور کسی بھی بدگمانی کو دور کرنا ہے، ہم سب اس مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت سب سے اہم 35 ملین افغانوں کے بارے میں فکر کرنا ہے جو انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔