فیصل آباد ۔ 05 ستمبر (اے پی پی):1965 کی جنگ ستمبر میں بہادری کے جوہر دکھانے والے فیصل آبادکے سپوت ایڈمرل جاوید اقبال نے کہا کہ جنگ ستمبر کے موقع پر دشمن نے پاکستان پر حملہ تو کردیا لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ اس نے اس قوم کو للکارا ہے جس کے سینے میں کلمہ طیبہ آبادہے لہٰذا اسے کئی گنا عددی برتری کے باوجودہر محاذ پربری طرح پسپائی کاسامنا کرنا پڑا۔منگل کے روز اے پی پی سے خصوصی بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ 6ستمبر کادن1965 کی جنگ کے شہیدوں اور غازیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انہیں بھی یہ سعادت بخشی کہ وہ بھی1965کی جنگ میں شریک ہوئے۔انہوں نے کہا کہ وہ، ان کے والد اور دادا ایسٹ پنجاب سے1947 میں ہجرت کرکے لاہور منتقل ہوئے۔1961میں انہوں نے نیوی میں شمولیت اختیار کی اور کمیشن کے بعد سب سے پہلے رن آف کچھ کی جنگ سمندر میں لڑی کیونکہ یہ جنگ خشکی پر نہیں لڑی گئی جس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
اس کے بعد نیوی کی بڑی جنگ سومنات پر حملہ تھی۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک نوجوان لیفٹیننٹ تھے جن کی پی این ایس شا ہ جہاں جہاز پرڈیوٹی لگی، ابھی 6 ستمبر سے قبل جنگ شروع نہیں ہوئی تھی لیکن نیوی کا ایک اہم رول تھاکہ رن آف کچھ پر ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی اوروہ وہاں جایا کرتے تھے کیونکہ ان کاکام بحری راستے کے تحفظ سمیت دوسرے جہاز وں کی حفاظت کرنا تھا۔ اسی سلسلے میں وہ 6 ستمبر کو بندرگا ہ سے نکل رہے تھے کہ اطلاع ملی کہ صدر پاکستان ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔
صدر مملکت ایوب خان نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج صبح ہمارے بزدل دشمن نے لاہور کی طرف سے حملہ کر دیا ہے مگرہمارے بہادر نوجوان، ہمارے غازی افسران ان کا مقابلہ کر رہے ہیں جس پرانہوں نے اپنی اپنی ڈیوٹی پرجا کر پوزیشنز سنبھال لیں،ریڈیو پر خبریں سنیں کہ پاک فضائیہ نے دشمن کے جہاز مار گرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ1965 کی جنگ کا کریڈٹ پاک فضائیہ کو جاتا ہے کیونکہ پاک فضائیہ کی تیاری ایئر مارشل اصغر خان نے جس طرح کروائی اسے پوری قابلیت سے ایئر مارشل نور خان نے استعمال کیا اور ہماری لاج رکھ لی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ جب تک ہمارے افسران ہمیں کوئی حکم نہیں دیدیتے اس وقت آپ اپنی تیاری پوری رکھیں، ہم اپنے پرانے مشن کی طرف جا رہے ہیں، ہمارا رخ گلف آف ایڈ ڈکی طرف تھا، پاکستان نیوی شپ بابر، بدر، جہانگیر، عالمگیر، ٹیپو سلطان اور شاہ جہاں، جنگی بحری جہاز وں کا قافلہ اس طرف جا رہا تھا اور افسران و نوجوان جنگ لڑنے کیلئے بے تاب تھے۔
انہوں نے کہا کہ 8 ستمبر کی شام کمانڈنگ آفیسر کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ ہمیں حکم آیا ہے کہ اپنے جہازوں کا رخ انڈیا کے دبالکا اوٹھ کی طرف کردیں جہاں پر حملہ کرنا ہے کیونکہ وہاں کا ریڈار سسٹم انڈین ایئر کرافٹ کو ہدایات دے رہا ہے کہ کراچی پر حملہ کرنا ہے جس پر افسروں اور نوجوانوں میں دشمن کیخلاف جنگ کیلئے بے چینی مزید بڑھ گئی۔ ہم نے یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ سومنات پر محمود غزنوی نے بھی کئی حملے کئے تھے لہٰذاہر کوئی اپنے مشن کیلئے پرجوش تھا، ہمارے سینئر افسران اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ انڈین نیوی، انڈین ایئر کرافٹ، انڈین سب میرینز کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ان کے جہازوں میں بہت سی خرابیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام کے بعد ہمیں ہدایات دی گئیں کہ اپنے جہازوں کے رخ ممبئی (بمبئی)کی بجائےبھارت کے ساحل کی طرف کر دیں اور ہمارے سارے جہاز ایک لائن میں ہو گئے۔ رات کے 12 بجے ہمیں حکم ہوا کہ اپنے جہازوں کی توپوں کا رخ دائیں جانب پھیر دیا جائے جس کے بعد تمام جہازوں نے 50 سے زائد گولے دشمن کی جانب برسائے۔ایڈمرل جاوید اقبال نے بتایاکہ ہم دشمن سے کافی فاصلے پر تھے اس کے باوجود بھی ان کے جہازوں کے تباہ ہونے اور ان سے نکلتی ہوئی آگ کو دیکھ سکتے تھے اور ہماری جانب سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ہمارے نوجوان اور افسران بہت پر جوش تھے لیکن افسران نے ہمیں مزید گولہ باری سے روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے 1965کی جنگ میں حصہ لیا اوروہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی دشمن کیخلاف جنگ،جنگ بدر تھی اوراس جنگ کو جیتنے کے بعد ہم نے پاکستان کو بچایا، ہم ان شہیدوں اور غازیوں کوسلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ایڈمرل جاوید اقبال نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے نبیؐ اور دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، ہمارا ملک دنیا کے دیگر ممالک کی طرح قومیت کے نام پر معرض وجود میں نہیں آیا، یہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے کہا تھا کہ اگر ہم وہاں رہتے تو وہاں یا ا نگریزوں یا ہند وؤں کا نظام ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ہم تویہاں اپنے آقا ؐ کے نظام کیلئے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1965 کی جنگ ستمبر پاکستان کے فوجی جوانوں نے قوم کی دعاؤں سے ثابت کردیا کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبہ ایمانی سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔