لاہور۔4ستمبر (اے پی پی):تحریکِ پاکستان کے بزرگ کارکن اور ممتاز سماجی شخصیت صوفی برکت علی نے کہا ہے کہ جنگِ ستمبر ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے جو نہ صرف دشمن کی جارحیت کے مقابلے میں ہماری بہادری کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جنگ صرف توپوں اور ٹینکوں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ اصل جنگ ایمان، حوصلے اور یکجہتی کے جذبے سے لڑی جاتی ہے۔
جمعرات کو اے پی پی سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے 1965 کی جنگ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ 6 ستمبر کی صبح ابھی پوری طرح روشن بھی نہ ہوئی تھی کہ توپوں کی گھن گرج نے لاہور کی فضا کو ہلا ڈالا۔ پہلے پہل ہمیں لگا کہ شاید کوئی فوجی مشق جاری ہے، لیکن جب ریڈیو پاکستان نے اعلان کیا کہ دشمن نے رات کے اندھیرے میں سرحد عبور کر لی ہے اور پاک فوج وطن کے دفاع میں مصروف ہے، تو پورے شہر میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، انہوں نے ایک دوسرے کو حوصلہ دیا اور بلند آواز میں فوج کے حق میں نعرے لگائے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت شہری دفاع کی ٹیمیں گلی گلی گشت کرتی تھیں اور لوگوں کو بمباری کے خدشے کے پیش نظر محفوظ جگہوں پر منتقل ہونے کی ہدایات دیتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ شہر میں ہوائی حملے کے سائرن بجتے تو ہم سب عورتیں، بچے اور بزرگ قریبی زیرِ زمین خندقوں میں چھپ جاتے اور دعائیں پڑھتے۔ رات کو ہر کھڑکی اور ہر دروازے پر کالے پردے ڈال دیے جاتے تاکہ دشمن کے جہازوں کو روشنی کی کوئی جھلک نہ ملے۔صوفی برکت علی نے کہا کہ اس زمانے میں عوام کا حوصلہ فوجی جوانوں سے کم نہ تھا،گلیوں میں نوجوان رضاکار فوجی قافلوں کو پانی اور کھانے کی اشیاء پہنچاتے،خواتین نے اپنے زیورات تک دفاع وطن کے لیے چندہ کر دیے۔ یہ جذبہ بتاتا ہے کہ اصل میں جنگ صرف محاذ پر موجود سپاہی نہیں لڑتے بلکہ پورا شہر، پورا ملک اس کا حصہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خوف اور ڈر اپنی جگہ موجود تھا مگر اس سے کہیں بڑھ کر یہ احساس غالب تھا کہ یہ لڑائی ہماری زمین، ہمارے گھروں اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقاکی جنگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب لاہور کے قریب برکی اور واہگہ سیکٹر سے شہدا کے جنازے آتے تو پورا محلہ میت کے گرد کھڑا ہو جاتا۔ عورتیں آنکھوں میں آنسو لیے ہوتیں اور مرد بلند آواز میں وطن کی سلامتی کے نعرے لگاتے۔
یہ وہ لمحے تھے جب غم اور فخر ایک ساتھ محسوس ہوتے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں صوفی برکت علی نے کہا کہ وقت گزر گیا، لیکن یہ واقعات وقت کی دھول میں کبھی دب نہیں سکے ، ہر سال یوم دفاع پر جب میں لوگوں کو یہ واقعات سناتا ہوں تو وہ حیرت سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ محض تاریخ کے اوراق ہیں، مگر میرے لیے یہ زندہ لمحے ہیں۔
لمحے جو اب بھی چیختے ہوئے سائرن، بجھتے ہوئے چراغ، جلتی عمارتوں اور سہمے ہوئے بچوں کے آنسوں کے ساتھ میری یادوں میں موجود ہیں۔انہوں نے نوجوان نسل کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جنگِ ستمبر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ وطن کی حفاظت صرف سرحدوں پر پہرا دینے والے فوجیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہر شہری کا فرض ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ہم آج بھی اسی جذبے اور یکجہتی کو زندہ رکھیں تو کوئی طاقت پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی ۔حال ہی میں بھارت کو عبرتناک شکست دے کر پاکستان نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہماری قوت اتحاد اور ایمان میں ہے۔