اسلام آباد۔23جون (اے پی پی):30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال کی بابت مطالبات زر اور تخصیصات میں شامل غیر تصویبی اخراجات کی تفصیل قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی، کل 28 ہزار 773 ارب 77 کروڑ روپے سے زائد کے یہ غیر تصویبی اخراجات شامل ہیں۔ پیر کو قومی اسمبلی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 82 کی شق 1 کے تحت 30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال کی بابت مطالبات زر اور تخصیصات میں شامل غیر تصویبی اخراجات کی تفصیل وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی جانب سے پیش کی گئی جن کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے بیرونی ترقیاتی قرضے اور ایڈوانس کی مد میں 774 ارب 95 کروڑ روپے، غیر ملکی قرضہ جات کے مصارف ایک ہزار 9 ارب 32 کروڑ روپے، غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے 5 ہزار 472 ارب 22 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
ملکی قرضہ جات کے مصارف 7197 ارب 92 کروڑ، ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے 14 ہزار 7 ارب 18 کروڑ روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ گرانٹس، اعانتیں اور متفرق اخراجات کیلئے 60 ارب، آڈٹ کیلئے 9 ارب سے زائد رکھے گئے ہیں، سپریم کورٹ کیلئے 6 ارب 64 کروڑ، اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے 2 ارب 17 کروڑ، وفاقی محتسب کیلئے ایک ارب 64 کروڑ 37 لاکھ، الائونسز کہن سالی و پنشن کیلئے 5 ارب 92 کروڑ 76 لاکھ، فارن مشنز کیلئے 5 کروڑ، شعبہ قانون و انصاف کیلئے 47 کروڑ 43 لاکھ، قومی اسمبلی کیلئے 6 ارب 85 کروڑ، سینیٹ کیلئے 6 ارب 17 کروڑ، صدر کا عملہ خانہ داری اور الائونسز (پبلک) کیلئے 93 کروڑ 37 لاکھ، صدر کے عملہ خانہ داری اور الائونسز (پرسنلز) کیلئے 1 ارب 75 کروڑ 97 لاکھ، الیکشن کیلئے 9 ارب 86 کروڑ 93 لاکھ اور کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کئے جانے کیخلاف تحفظ کیلئے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کو 23 کروڑ 53 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
غیر تصویبی اخراجات پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے زرتاج گل نے کہا کہ قومی اسمبلی کے لئے اربوں روپے بجٹ رکھا گیا ہے، میں پارلیمانی لیڈر ہوں، میرے پاس آفس و عملہ نہیں ہے، منتخب نمائندوں کی وجہ سے یہ ایوان چلتا ہے، یہاں آفیسروں کے پاس دفتر ہیں ہمارے پاس نہیں، ہر پارلیمانی لیڈر کے لئے آفس ہونا چاہئے، زرتاج گل نے کہا کہ محتسب کے ادارے اپنی کارکردگی رپورٹ یہاں پیش کریں۔ چنگیزخان جمالی نے الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے زیادہ غیر تصویبی اخراجات کی مخالفت کی اورکہاکہ ان اداروں کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ انیقہ مہدی نے کہا کہ ملک کیلئے آزاد عدلیہ ضروری ہے،حکومت کافرض ہے کہ وہ لوگوں کوانصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ کے ساتھ معاونت کرے، عدلیہ کوبھی اپنی ذمہ داریاں اداکرناچاہئے۔
نور عالم خان نے کہاکہ ایئر فورس کے پائلٹوں کیلئے رسک الائونس کو2011کی سطح پر فریز رکھا گیا ہے، حکومت ائیرفورس کے پائلٹوں کیلئے رسک الائونس میں اضافہ کرے۔ انہوں نے کہاکہ دیوانی مقدمات 60 سے لیکر 70 سالوں سے زیر سماعت ہیں، جعلی سٹامپ پیپرز پر سیشن عدالتوں میں بیوائوں کی زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ مقدمات کے جلد اور منصفانہ بنیادوں پرسماعت کو یقینی بنایا جائے۔ شاہد خٹک نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہیں ہے، پارلیمان کیلئے اخراجات زیادہ رکھے گئے ہیں۔ نثار احمد جٹ نے قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کے اخراجات کی مخالفت کی۔ بحث میں عالیہ کامران، صاحبزادہ صبغت اللہ، جمشید دستی، خواجہ شیراز محمود، ارباب شیر علی، علی محمد خان نے بھی حصہ لیا۔