اسلام آباد۔9ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر منصوبہ بندی ،ترقی ، اصلاحات و خصوصی اقدامات و ڈپٹی چیئرمین این ایف آر سی سی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک میں حالیہ سیلاب سے پاکستان کےمجموعی انفراسٹرکچر ،ذریعہ معاش سمیت 4 مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ، عالمی برادری اور دوست ممالک کے تعاون سے ہم جلد ان چیلنجز سے نبردآزماہوجائیں گے ،وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ اقوام متحدہ سے قبل ملک میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ابتدائی ا تخمینہ لگا لیں گے ، حالیہ سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوباہوا ہے ، 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب سے زیادہ اس سیلاب میں نقصانات ہوئے ہیں ،سندھ کا بہت سا را حصہ ابھی بھی پانی میں ڈوبار ہوا ہے ، ٹریک پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے اسلام آباد تا کراچی ریلوے آپریشن معطل ہے ۔
وہ جمعہ کو نیشنل فلڈر ریسپانس کوآرڈنیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) میں وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے دورہ کے موقع پر بریفنگ دے رہے تھے ۔وفاقی کابینہ کے اراکین ، نیشنل کوآرڈینیٹر این ایف آر سی سی میجر جنرل ظفر اقبال اس موقع پر موجود تھے ۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اس مشکل وقت میں عالمی برادری کو آپ کے پیغام سے ہمیں حوصلہ ملا ہے، دنیا اس پر بیدار ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت موسمیاتی ڈیزاسٹر سے نمٹ رہے ہیں ،ں ، 2010 سیلاب میں 20 ملین افراد متاثر ہوئے تھے ،حالیہ سیلاب میں 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں، دنیا کے کسی ملک میں اتنا بڑا سانحہ نہیں ہوا ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں چار چیلنجز کا سامنا ہے ،ان میں پہلے نمبر پر یہ ہے کہ حالیہ سیلاب سے ہمارے انفرسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے ، سڑکیں، ریلوے ،آبپاشی نظام ،ہسپتالیں ،واٹر اینڈ سینی ٹیشن، سکول ، ڈی، بجلی اور گیس ٹرانسمیشن لائنیوں سمیت انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اقوام متحدہ کے ماہرین ، وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کے ساتھ ملکر نقصانات کے تخمینے کے لئے سٹڈی شروع کر دی ہے، وزیراعظم کے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی دورہ سے قبل نقصانات کی ابتدائی رپورٹ تیار کر لی جائے گی، تفصیلی رپورٹ 4 تا 6 ہفتوں میں تیار ہوجائے گی ۔ ہمارا دوسرا چیلنج ذریعہ معاش کو نقصان پہنچنا ہے ،ہماری فصلیں ،باغات ، آئندہ فصلوں کے لئے بیچ تباہ، ایک بڑی تعداد میں مویشی ہلاک ہوئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا چیلنج ان متاثرہ 33 ملین لوگوں کو واپس آسانی والے ماحول میں لانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سیلاب کے باعث ہماری 3 فیصد جی ڈی پی گروتھ متاثر ہوئی ہے ، ہم پہلے ہی مہنگاہی کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سینیٹر سول ،ملٹری ، وفاقی ،صوبائی حکومتوں اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر ریسکیو، ریلیف آپریشن کے لئے مربوط تعاون یقینی بنارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان قوم باہمت ہے جس نے موسمیاتی چیلنجز کا مقابلہ کیا ،ہم دوست ممالک کے تعاون کے ساتھ جلد آسانی والے ماحول میں آجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سینیٹر میں یومیہ کی بنیاد پر سیلاب کے صوتحارل اور ریلف آریشل کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اس موقع پر نیشنل کوآرڈینیٹر این ایف آر سی سی میجر جنرل ظفر اقبال نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ صوبے میں 600 ملی میٹر بارشیں ہوئیں جو 500 فیصد زیادہ ہیں ، دنیا میں سب سے زیادہ ایک مقام پریہ بارشیں ریکارڈ ہوئیں ہیں ،پاکستان کو 2005 کے زلزلے میں 5.2ملین ڈالر اور 2010 کے سیلاب میں 43بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان ایک تہائی پانی میں ہے ، لاکھوں کی تعداد میں لائیو سٹاک کا نقصان ہوا،اسلام آباد سے کراچی ریلوے ٹریک کئی مقامات پر پانی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے سندھ میں حالات میں بتدریج بہتری آئے گی ،سندھ میں ریسکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے دو اضلاع میں پانی زیادہ ہے ،گلگت اور آزاد کشمیر میں ماضی میں زیادہ بارشیں ہوتیں رہیں لیکن اس مرتبہ کم بارشیں ہوئیں ہیں،منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش برقرار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سینیٹر کے ذریعے تمام سٹیک ہولڈرز ، صوبائی حکومتیں، مسلح افواج مربوط کوششیں کر رہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ ، امریکہ ،چین، متحدہ عرب امارات سمیت دوست ممالک ریلیف سرگرمیوں کے لئے مدد کر رہے ہیں جس پر ہم ان کے شکر گذار ہیں ۔