حدیبیہ پیپر ملز بالحاظ حجم پانا ما پیپرز کیس سے بڑی کہانی ہے، مقدمہ میں کچھ نئے حقائق سامنے پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا، کیس بند کرنے والے جج کے بیرون ملک اثاثوں کا انکشاف ہوا،وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا بیان

118
ہم منظم مافیا کا سامنا کر رہے ہیں، ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی بے سروپا رپورٹ میں ایسے قصے جوڑے گئے کہ کرپٹ اپوزیشن کی بھی جرات ہوئی کہ حکومت پر تنقید کرے، وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا ٹویٹ

اسلام آباد۔11مئی (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس تقریباً 1242 ملین روپے کے فراڈ کی کہانی ہے جو بالحاظ حجم پاناما پیپرز کیس سے بڑی ہے اور اس کی ابتداء2000ءمیں اس وقت ہوئی جب نیب حکام نے حدیبیہ پیپرز کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا، نواز شریف کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز، شہباز شریف اور ان کے سیاسی وارث حمزہ شہباز بھی اس کیس کے مرکزی کردار ہیں، اس مقدمے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جس پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، پاکستان کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔

منگل کو حدیبیہ پیپرز ملز کے خلاف کیس کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے اپنے بیان میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اس فراڈ میں شریف خاندان کی معاونت کیلئےفارن کرنسی کے جعلی بے نامی اکائونٹس کھلوائے۔ پکڑے جانے پر اسحاق ڈار وعدہ معاف گواہ بنے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو اپنا تفصیلی بیان بھی ریکارڈ کروایا مگر بعد میں یہ کہہ کر کہ ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا، اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس فراڈ کیلئے بہت ہی زبردست طریقہ اختیار کیا گیا، حدیبیہ پیپر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران نیب اسلام آباد کے تحقیق کاروں پر یہ انکشاف ہوا کہ 97۔ 1996ءاور 98۔ 1997 کے دوران کمپنی کے کھاتوں میں بالترتیب 30.499 ملین اور 612.273 ملین روپے بطور شیئر ڈیپازٹ ظاہر کئے گئے ہیں۔ وہ کمپنی جس کا اس سرمایہ کاری سے قبل حجم محض 95.7 ملین اور مجموعی خسارہ 809.834 ملین روپے تھا، میں اتنی بھاری رقوم کی آمد نے تحقیق کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔

چنانچہ نیب نے 1999ءکے نیب آرڈیننس کے تحت معاملے کی پڑتال کے احکامات صادر کر دیئے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ ملز انتظامیہ جو میاں محمد شریف، شمیم اختر، نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، مریم صفدر، صبیحہ عباس، حسین نواز اور حمزہ شہباز پر مشتمل ہے، کی تجوریوں میں بھاری بھرکم غیرقانونی سرمایہ موجود ہے اور وہ اس دولت کے ذرائع بتانے سے قاصر ہیں۔ ان لوگوں نے منی لانڈرنگ کیلئے 1992 کے دی پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ کی مختلف شقوں کا سہارا لے کر دھوکے سےفارن کرنسی کے مختلف جعلی اکائونٹس کھولے اور بہت سی دولت ان کھاتوں میں جمع کروائی۔

جب یہ جعلی اکاونٹس کا بھانڈا پھوٹ گیا تو انہوں نے یہ پیسہ حدیبیہ پیپر ملز کے اکائونٹس میں اس طرح براہِ راست ڈالنے کا فیصلہ کیا، اس مقصد کیلئے انہوں نے اس مل کے اکاونٹس کیلئے اس بیرونی کرنسی کی مالیت کے برابر مختلف ڈالر ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹیز) کا بندوبست کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی شہباز شریف اور مریم نواز کی رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں، 1242.732 ملین روپے اچانک شریف فیملی کے اثاثوں میں آگئے یہ رقم پاناما اسکینڈل سے بھی بڑی تھی۔ نیب نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مذکورہ واردات کے ذریعے شریف خاندان کے ان نامزد افراد نے منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کئے بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔

مشرف دور میں جب یہ معاملہ احتساب عدالت کے روبرو آیا کیس کے دوران ہی شریف فیملی نے مشرف حکومت کے ساتھ ڈیل کی اور سعودی عرب چلے گئے، 09۔ 2008 میں معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا لیکن پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مک مکا نے کیس پھر رکوا دیا۔ کہا گیا کیس نہیں چل سکتا چیئرمین نیب کے دستخط نہیں ہیں۔ شریف خاندان نے کارروائی کو لاہور ہائی کورٹ کے روبرو چیلنج کیا تو دو رکنی ڈویژن بنچ نے 1،1 سے منقسم فیصلہ سنایا۔ یوں معاملہ ریفری جج کے پاس چلا گیا جس نے مقدمے کی بندش کا فیصلہ کرنے والے ڈویژن بنچ کے جج کی رائے کی حمایت میں فیصلہ دیا اور مقدمہ 2014 میں بند کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی تفصیلی تفتیش کے بعد اس کیس کا ایک دن بھی عدالتی ٹرائل نہیں ہوا، جس جج نے کیس بند کرنے کا فیصلہ دیا پاناما سکینڈل میں انکشاف ہوا کہ ان جج صاحب کے اپنے اثاثے بھی بیرون ملک تھے، بدقسمتی سے ان جج صاحب کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس مقدمے میں اب کچھ نئے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے، امید ہے عدلیہ ان ججوں پر بھی کاروائی کرے گی جنہوں نے شریف فیملی کی معاونت کی۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان کا مستقبل قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے