کراچی۔27جون (اے پی پی):پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما اورقائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ سندھ میں 13 سالوں میں 1400 ارب کی کرپشن ہوئی ہے، سندھ کے ہر محکمے کی چارج شیٹ بنا لی ہے، روزانہ کی بنیاد پر ہر محکمے پر پریس کانفرنس کر کے عوام کوبتائیں گے کہ سندھ کو طرح پیپلزپارٹی نے لوٹا ہے۔ انہوں نے اتوار کو سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس کے دوران محکموں میں سندھ حکومت کی کرپشن پربنائی گئی چارج شیٹ میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ کے محکمہ تعلیم، صحت، ایریگیشن، ایریکلچر، جنگلات، روینیو، خزانہ، انفارمیشن، لائیو اسٹاک فشریز، ایکسائز،دیہی آبادی، زکواة، اوقاف، کلچر اینڈ ٹورزم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، محکمہ خوراک سمیت سندھ کے تمام محکموں پر چارج شیٹ تیار کرلی گئی ہے جو عوام کے سامنے لائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اسمبلی فلور پر ہم نے عوام کی آواز اٹھانی تھی، بجٹ پر کیا کیا گیا ہے اس پر بات کرنی تھی،
تقریر نہیں کرنے دی گئی جو میرا آئینی حق تھا، آئین کے آرٹیکل 69 کے اور 209 کے تحت ہم اسپیکر کی رولنگ پر سوال نہیں کر سکتے،انکا کام ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں ،اگر اس میں کوئی کمی ہوجائے تو عدالت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق پر عمل کروائے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی بجٹ سیشن میں تقریر لازمی ہوتی ہے۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ میں جمہوریت کو وائرس لگ گیا ہے، سندھ میں 13 سالوں میں 1400 ارب کی کرپشن ہوئی ہے،پبلک اکائونٹس کمیٹی میں فریال ٹالپر صاحبہ اور شرجیل میمن میمبر ہیں، ایک بھی اپوزیشن کا رکن نہیں رکھا گیا ہے،سندھ کی قائمہ کمیٹی میں ایک بھی ممبر اپوزیشن جماعتوں کا نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ کتنے جمہوریت پسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج سندھ میں جمہوریت کا سوئم ہوگیا ہے، تین روز قبل جمہوریت کا سندھ اسمبلی میں فلور پر قتل کر دیا گیا ہے،
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بجٹ اس وزیر اعلی نے پیش کیا جس پر آڈیٹر جنرل کہتا ہے کہ اس پر 1400 ارب کی کرپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں میں 44 فیصد کرپشن ہے،یہ بنائی گئی چارج شیٹ مجھے اسمبلی میں پیش کرنی تھے، اب اس چارج شیٹ کو لیکر عدالتوں میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت آئین پاکستان کی خلاف ورزی کر رہی ہے،سندھ میں آئین کے آرٹیکل 8(1)-9-11-15-16-19-19A-24-25-25 Aکی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے،یہ وہی آئین ہے جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے پیش کیا تھا، پیپلزپارٹی اسی آئین کی گزشتہ 13 سالوں سے خلاف ورزی کر رہی ہے،
سندھ میں پیپلزپارٹی کو آئین کی خلاف ورزی کرنے کے بعد حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔اس آئین پاکستان کے مطابق عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سندھ میں مسلسل ہورہی ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ حکومت سندھ نے پچھلے 13 برس کے دوران 8912 ارب روپے خرچ کئے ہیں،صوبے کو 80 فیصد فنڈز وفاق سے ملے ہیں،یکم جولائی 2008 سے 30 جون 2021 تک 13 برس کے دوران حکومت سندھ نے کل 8912 ارب 40کروڑ روپے خرچ کئے ہیں جن میں 7266 ارب روپے غیر ترقیاتی اور1646 ارب 40 کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات شامل ہیں،سندھ حکومت نے کرپشن میں اپنے ہی سابقہ رکارڈ توڑ ڈالے،1400 ارب کی 13 سالوں میں کرپشن کی گئی ہے۔
سندھ کے وزرا نے زکواة ،معذور افراد کی امدادی رقم یہاں تک کہ یتیموں کے پیسے بھی نہیں چھوڑے اور تقریباً ایک ارب نوے کروڑ روپے کی زکواٰة کی رقم خرد برد کی گئی ہے،مستحقین زکواة کے 117 کروڑ روپے سندھ بینک نے تقسیم کرنے کی بجائے 4 ماہ تک سیونگ اکائونٹ میں رکھ کر منافع کمایا، ڈان اخبار میں رپورٹ لگی ہے،سندھ حکومت نے زکواة کے پیسوں کو بھی بینظیر کا نام دے دیا،بینظیر معاونت کارڈ زکواة کے پیسوں سے دیئے جارہے ہیں، عدالت نے نوٹس لیا ہے۔حلیم عادل شیخ نے کہا موجود بجٹ 1477ارب روپے کے حجم میں سے 77فیصد بجٹ غیر ترقیا تی بجٹ پر مشتمل ہے،
صرف 23فیصد بجٹ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مختص کیا گیا ہے،گزشتہ برس 150ارب روپے حکو مت سندھ نے اپنی نا اہلی کے با عث خرچ کر نے میں ناکام رہی،گزشتہ مالی سال میں سندھ کے اضلا ع کیلئے 15ارب روپے رکھے گئے تھے جس میں سے13ارب روپے خرچ ہو چکے تھے، اب 30 ارب روپے سندھ کے اضلا ع کیلئے رکھے گئے ہیں، بجٹ میں منصوبہ بند ی نظر نہیں آتی،بالخصوص سندھ کے شہری علاقوں کیلئے اس بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔2019-2020 کے دوران وفاق سے 606 ارب 70 کروڑ روپے سندھ کو منتقل ہونے تھے، سندھ کو ہونے والی ایکچیوئل ریوینیو منتقلیوں کے اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کو 637 ارب روپے منتقل ہوئے، یعنی سندھ حکومت کے اپنے نظرثانی بجٹ تخمینے سے وفاق سے 31 ارب روپے زیادہ ملے لیکن وزیر اعلی سندھ کو وفاق کی یہ مثبت بات بتانے میں تکلیف ہورہی ہے ،
سندھ حکومت نے اپنے وسائل سے آمدنی کا نظرثانی تخمینہ 250 ارب روپے ہونے کا تخمینہ لگایا تھا، پچھلے سال سندھ حکومت اپنے وسائل سے صرف 192 ارب 28 کروڑ روپے وصولیابی کرسکی تھی ۔یعنی صوبائی حکومت خود نظرثانی تخمینے سے تقریبا 58 ارب روپے کم وصول کرسکی لیکن اپنی یہ ناکامی بھی وزیر اعلی سندھ آپ کو نہیں بتائیں گے یعنی سندھ حکومت کو اپنے وسائل سے بجٹ تخمینے کے مقابلے میں اس سا بائی حکومت کو صرف 88 کروڑ 80 لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس کی مد میں بھی تین ارب 49 کروڑ روپے کم ٹیکس وصول ہواجبکہ مقررہ ہدف 4 ارب روپے تھا جس کے مقابلے میں صرف ایک ارب 51 کروڑ روپے ٹیکس وصول ہوا۔ موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھی ایک ارب روپے کمی کا سامنا کرنا پڑا،سندھ حکومت نے رواں مالی سال 21-2020 میں 95 ارب، 34 کروڑ 52 لاکھ 51 ہزار410 روپے سپلیمنٹری اخراجات کی مد میں خرچ کر لئے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روان مالی سال کے بجٹ میں وزیر اعلی ہائوس کے اخراجات کی مد میں 94 کروڑ 33 لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے۔
رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینے میں 30 جون 2021 تک مذکورہ مد میں 15 کروڑ 90 لاکھ 22 ہزار روپے زیادہ یعنی ایک ارب 10 کروڑ 23 لاکھ 82 ہزار روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لئے وزیر اعلی ہائوس کے اخراجات کی مد میں 86 کروڑ 23 لاکھ 46 ہزار روپے اضافے کے ساتھ ایک ارب 80 کروڑ 56 لاکھ 46 ہزار روپے مختص کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سندھ بالخصوص لاڑکانہ ڈویژن میں زخمیوں کو بھلے ریڑھیوں، چنگچی رکشوں، گدھا گاڑیوں اور گاڑیوں میں موجود جانوروں کے ساتھ اسپتال پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نئے اخراجات کی مد میں جو 18 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ صوبائی وزرا، مشیروں اور افسران کی نئی گاڑیوں کے لئے 4 ارب 18 کروڑ 15 لاکھ 2 ہزار روپے مختص کر دیئے۔
ہیں جن میں سے 2 ارب روپے پولیس، 83 کروڑ 50 لاکھ مالیت کی نئی گاڑیاں ریونیو فیلڈ افسران کو بھی ملیں گی،محکمہ بلدیات کے پول میں بلدیاتی اداروں کی سینکڑوں گاڑیاں موجود ہونے کے باوجود محکمہ بلدیات کے فیلڈ افسران کے لئے 30 سے زائد نئی گاڑیوں کی خریداری کے لئے بجٹ میں 6 کروڑ 11 لاکھ 9 ہزار روپے مختص کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ کیوں نہ کہوں، رواں مالی سال میں 85 ارب روپے کیش بچت کرنے والی سندھ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر 35 فیصد سے زائد یعنی 55 ارب روپے کم خرچ کر کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اپنی ہی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کر دیا ہے۔صوبائی حکومت یہ جواز گھڑتی رہی ہے کہ وفاق سے بجٹ تخمینے کے مقابلے میں کم فنڈز جاری ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت سخت مالی بحران کا شکار رہی ہے
جس کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ میں کٹ لگا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت سندھ نے صوبائی اے ڈی پی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 155 ارب روپے مختص کئے تھے،نظر ثانی شدہ تخمینے کے مطابق 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام تک مذکورہ مد میں 55 ارب روپے کم یعنی سو ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اپنی جو آمدنی ظاہر کی ہے اس میں 85 ارب روپے کی رقم کیری اوور کیش بیلنس کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ 85 ارب روپے سندھ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران مختلف مد میں بجٹ تخمینے سے کم فنڈز خرچ کرے
۔خود کو مزدوروں اور محنت کشوں کا محسن کہلوانے والوں نے انہی محنت کشوں اور مزدوروں کے ساتھ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی غرض سے انتہائی بھونڈا مذاق کیا ہے۔ حکومت سندھ نے مزدوروں کی کم سے کم اجرت وفاق کے مقابلے میں 5 ہزار روپے اضافے کے ساتھ کم سے کم 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کورونا جہاں ابھی ختم نہیں ہوا ہے کورونا کی وجہ سے چھوٹی بڑی تمام صنعتیں اپنے بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔وہاں سندھ میں مزدوروں کی کم سے کم ماہانہ اجرت 17 ہزار 500 روپے سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ وفاقی اور پنجاب حکومت نے ڈھائی ہزار روپے اضافے کے ساتھ کم سے کم ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جھوٹے دعوئوں اور صرف نوٹی فکیشن جاری کرنے سے مزدور کے بچوں کو نہ روٹی مل سکتی ہے نہ ان کی غربت کم ہو سکتی ہے۔
اس بات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی ملک یا صوبے کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کتنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اے ڈی پی ہی وہ بجٹ دستاویز ہے جس کو عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے لئے مرتب کیا جاتا ہے، اے ڈی پی ہی وہ ذریعہ ہے جس کی توسط سے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی حکومت ان کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے کس قدر کوشاں ہے۔ افسوس کہ پچھلے 13 سال سے اس صوبے کی اے ڈی پی محض جھوٹے دعوئوں کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں رہی ،یہی وجہ ہے کہ عوام کا اس حکومت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ حکومت سندھ نے آئندہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے بھی زیادہ ایک ہزار 670 نئے ترقیاتی منصوبے شامل کر لئے ہیں جس سے تھرو فارورڈ میں 233 ارب سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اس اضافے کی وجہ سے اے ڈی پی ترقیاتی منصوبوں کے قبرستان میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس قبرستان میں صرف چھوٹے وعدوں کی میتیں دفن ہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پیش کی جانے والی اعداد و شمار کی شعبدہ بازی کے مطابق آئندہ مالی سال کی اے ڈی پی میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے صرف 62 عشاریہ 2 فیصد اور نئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 37 عشاریہ 8 فیصد کی خطیر رقم مختص کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے اے ڈ پی میں مجموعی طور پر 2 ہزار 246 ترقیاتی منصوبے شامل تھے جن میں سے نئے ترقیاتی منصوبے 177 تھے جن کے لئے 22 عشاریہ 4 فیصد رقم مختص تھی جبکہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مجموعی طور پر 3 ہزار 315 ترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں جن میں جاری ترقیاتی منصوبے ایک ہزار 645 اور نئے منصوبے ایک ہزار 670 شامل ہیں۔ تھر میں آج بھی بچے مر رہے ہیں تھر میں زچہ و بچہ کی اموات میں مستقل اضافہ حکومت وقت کے لئے اور انسانیت کے لئے کھلا چیلنج ہے لیکن حکومت اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی بجائے راہ فرار اختیار کرتی ہے۔
تھر میں اسپتالیں ہیں تو ڈاکٹر نہیں ڈاکٹر ہیں تو ادویات نہیں، ٹھٹہ سے لیکر کشمور تک آج بھی ہیپاٹائٹس کے علاج سے عوام محروم ہیں، ایڈز آج بھی خاموشی سے انسانی زندگیوں نگل رہا ہے، کتوں کے کاٹنے واقعات میں کوئی کمی نہیں آ رہی چند دن پہلے ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں کتے ایک وکیل کو کاٹ رہے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اس صورتحال پر اور افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں ڈاکٹرز سگ گزیدگی کے مریضوں کی تشخیص بھی نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کو تربیت دینا اور انہیں اینٹی ریبیز ویکسین اور ریبیز امیونوگلوبلین کی مناسب خوراک مہیا کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت سو رہی ہے اور آوارہ کتے انسانوں کو اپنا شکار بنا رہے ہیں۔
اگر محکمہ صحت سے متعلق بجٹ دستاویزات میں گئے یہ اعداد و شمار سچ ہیں کہ رواں مالی سال کے دوران محکمہ صحت کے غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 135 ارب 86 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کئے تھے 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام تک مذکورہ مد میں 21 ارب 51 کروڑ روپے اضافے کے ساتھ 157 ارب 25 کروڑ 72 لاکھ روپے خرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ساتھ ہی آئندہ مالی سال 2021-22 کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل محکمہ صحت کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 18 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔حلیم عادل شیخ نے کہا پانی کے معاملے پر وزیر اعلی سندھ سیاست کر رہے ہیں، ہم سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں سندھ کے حصے کا ایک قطرہ بھی کسی چوری کرنے نہیں دیں گے، صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا تنازعہ برطانوی راج کے دور سے چلا آرہا ہے،اس تنازعے کو حل کرنے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف میں مختلف کمیشنز بنے اور انکی رپورٹیں بھی شایع ہوتی رہیں اور آخر کار 1991 کے واٹر اکارڈ کے ذریعے سے اس دیرینہ مسئلے کو حل کر لیا گیا اور صوبوں کے لئے پانی کے حصے مختص کردیئے گئے ،1991 کے واٹر اکارڈ کے تحت ان دونوں نہروں یعنی تونسہ پنجد لنک کینال اور چشمہ لنک کینال کو پانی پنجاب کے لئے مختص حصے میں سے دیا جاتا ہے۔
اس واٹر اکارڈ کے پیرا (بی)کے تحت1977-82 کے دوران دس یومیہ استعمال کی بنیاد پر مستقبل کی ریگیولیشن کو وضع کیا جائے ،اس دس یومیہ استعمال کو لیتے ہوئے مستقبل میں سیزنل ایلوکیشن کی جائیں گی ،دس یومیہ کی بنیاد پر پانی کی کمی یا اضافے کو پورے پاکستان میں تقسیم کیا جائے گا ،چشمہ جہلم لنک اور تونسہ پنجند لنک کینالز کو 1991 کے واٹر اکارڈ کے پیرا (بی14 )کے تحت پنجاب ارسا کی طرف سے مختص کردہ اپنے حصے میں سے دوسرے صوبوں خصوصن سندھ کے حصے کو متاثر کئے بغیر چلا سکتا ہے،سندھ حکومت بار بار کہتی ہے ارسا نے تھری ٹیئر فارمولا اکارڈ میں سے ایجاد کیا ہوا ہے ان کا خیال ہے یہ قانونی نہیں ہے اکارڈ سے باہر ہے،2003 میں ارسا میں متفقہ طور پر فیصلہ ہوا تھا جس میں پنجاب اور سندھ کے نمائندے بھی موجود تھے یہ تھری ٹیئر فارمولا اکارڈ کے مطابق کے پانی تقسیم کیا جائے گا ۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ میں ایریگیشن نظام میں کرپشن ہے، پانی چوری کیا جاتا ہے عام کاشتکاروں کو حصے کا پانی نہیں دیا جاتا ۔