حکومت سندھ نے پچھلے 13 برس کے دوران 8912 ارب روپے خرچ کئے، 80 فیصد فنڈز وفاق سے ملے، حلیم عادل شیخ کی پریس کانفرنس

177

کراچی۔16جون (اے پی پی):پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور قائد حزب اختلاف سندھ حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ حکومت سندھ نے پچھلے 13 برس کے دوران 8912 ارب روپے خرچ کئے ہیں اور ان اخراجات کے لئے صوبے کو 80 فیصد فنڈز وفاق سے ملے ہیں،جوبجٹ خرچ کیا گیا ہے کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کے ہمراہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی ارسلان تاج، شاھنواز جدون دیگر رہنما بھی تھے۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ یکم جولائی 2008 سے 30 جون 2021 تک تیرہ برس کے دوران حکومت سندھ نے کل 8912 ارب 40کروڑ روپے خرچ کئے ہیںجن میں 7266 ارب روپے غیر ترقیاتی اور1646 ارب 40 کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات شامل ہیں،حکومت سندھ نے تیرہ برس کے دوران شعبہ تعلیم پر ایک ہزار 450 ارب روپے خرچ کئے ہیں،شعبہ صحت پر 768 ارب روپے اور امن امان پر 878 ارب خرچ ہوئے ہیں،شعبہ بلدیات پر 945 ارب روپے خرچ ہوگئے ہیں،سڑکوں کی تعمیر ۔ ٹرانسپورٹ آبپاشی نظام اور زراعت سمیت شعبہ ایکنامکس افیئرز پر ایک ہزار 161 ارب روپے، پیپلز پارٹی صوبے پر اپریل 2008 سے حکمرانی کر رہی ہے ہرسال صوبائی حکومت کے اخراجات بڑھتے گئے لیکن عوام کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں،

صحت کا ہر سال بجٹ بڑھ جاتا ہے لیکن غریبوں کو ایمبولنس تک میسر نہیں، اسپتالوں میں دوائیاں نہں ملتی، لاڑکانہ کی عوام کو ایڈز لگا دیا گیا، کتوں کے کاٹن کی ویکسین تک میسر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو پینے کا پانی تک نہیں ملتا، پیپلزپارٹی نے سندھ کو تباہ کر دیا ہے، بجٹ میں صرف فگرز کا گورکھ دھندھا کیا جاتا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے مزید کہا کہ پچھلے بجٹ سے اس بار 300 ارب زیادہ بجٹ ہے،وزیر اعلی کہتے ہیں وفاق کو 778 ارب دینے چاہیے تھے،بجٹ دستاویز کے مطابق وفاق نے سندھ کو 717 ارب روپے دے دیئے،

آخری ماہ کی ٹرانزکیشن میں اس سے بھی زیادہ رقم سندھ کو ملے گی،155ارب روپے اے ڈی پی پر رکھے جس میں 100 ارب خرچ ہوئے،اس بار 222 ارب رکھے گئے ہیں،پورے صوبے کی اے ڈی پی اسکیم 15 ارب تھی،13 ارب خرچ ہوئے،جس میں 40 فیصد کرپشن نکل جائے تو 7 ارب روپے ،77 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے،33 فیصد ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ تھر میں 635 آر او پلانٹ لگائے گئے سارے ناکارہ پڑے ہیں،ایشیا کا سب سے بڑا آر او پلانٹ بھی تھر میں بند ہوگیا ہے ،منجھر جھیل میں72 آر او پلانٹ بند پڑے ہیں ،1500 بلین آر او پلانٹ پر خرچ کر دیئے ،عوام کو پانی کی ایک بوند تک میسر نہ ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ11جون 2021 تک ترقیاتی منصوبوں پر صرف 73 ارب روپے خرچ ہوسکے ہیں، 53 فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوا ہے، پچھلے سال 2019-2020 کے کووڈ 19 کو بنیاد بناکر سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کرکے 208 ارب سے 90 ارب پر لایا گیا اور اصل خرچہ 88 ارب روپے ہوا ،حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں رونا رویا جاتا رہا ہے،اب بتایا جارہا ہے کہ سال 2019-2020 کے اختتام پر صوبائی خزانے میں 78 ارب کی بچت ریکارڈ ہوئی، بھائی اگر پیسے بھی تھے ترقیاتی بجٹ پر کٹ کیوں لگایا تھا ،

اس بجٹ میں بھی اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ کیا گیا ہے،ایک طرف بتایا جارہا ہے کہ رواں مالی سال 2020-2021 کے اختتام پر 34 ارب روپے خسارے کا شکار ہوگی،بجٹ دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے، رواں مالی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر سندھ کے خزانے میں 85 ارب روپے کا کیری اوور کیش بیلنس ہوگا یعنی سندھ کا خزانہ 85 ارب روپے کی بچت میں ہوگا ۔ حلیم عادل شیخ نے مزید کہا کہ سندھ حکومت رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل 400 ترقیاتی منصوبوں پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کر سکی،

سندھ حکومت رواں ملی سال کے دوران سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص کردہ 53 فیصد فنڈز خرچ کرنے میں ناکام رہی ہے،حکومتی خزانے میں 85 ارب روپے کا کیش بیلنس موجود ہے، سندھ حکومت کی جانب سے اس سال کے لئے ڈویزنل ہیڈکوارٹر سطح پر انفیکشس ڈزیز اسپتال قائم کرنے ، کراچی سرکلر ریلوے ، کراچی شہر کے لئے ریڈ لائن اور یلو لائن تیز رفتار بسوں کے منصوبوں پر کام شروع کرنے سمیت بجٹ میں کئے گئے کئی اعلانات صرف اعلان ہی رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے محکمہ خزانہ سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2020-2021 کے سندھ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے 2246 منصوبوں کے لئے 155 ارب مختص کئے گئے تھے ،

جن میں سے 11 جون 2021 تک صرف 73 ارب روپے خرچ ہوسکے ہیں ، یعنی صوبائی ترقیاتی پروگرام کی 53 فیصد رقوم 82 ارب روپے خرچ ہی نہیں ہوسکے ، وزیر اعلی سندھ کی جانب سے آئیندہ مالی سال کے لئے پیش کردہ نئے بجٹ کے دستاویزات کے مطابق حکومت سندھ نے آئیندہ مالی سال کی ابتدا 85 ارب روپے کیری اوور کیش بیلنس سے ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔

جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت سندھ کے لئے فنڈز کی کمی کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھاتو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیوں نہیں ہوسکا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعلی سندھ نے بجٹ تقریر میں دعوی کیا ہے کہ صوبائی ادارے رواں مالی سال کے سالانہ صوبائی ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص کردہ 155 ارب روپے میں سے 30 جون تک 100 ارب روپے خرچ کرلیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے محمکہ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق اگر اے ڈی پی پر11 جون تک یعنی سال کے گیارہ ماہ گیارہ دن میں 73 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں تو باقی 19 روز میں 27 ارب روپے کیسے خرچ ہوسکیں گے،

یہ ساری رقم کاغذوں میں جھوٹے بل بنا کرخرچ دکھائی جائے گی۔ حلیم عادل شیخ نے کہا سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ رواں مالی سال صوبے میں 10 ارب روپے لاگت سے 5 نئے انفیکشس ڈزیز کنٹرول اسپتال قائم کئے جائیں گے ، پورا سال گزر گیا لیکن ایک بھی اسپتال پر کام شروع نہیں ہوسکا ، کراچی سرکلر ریلوے کے لئے انڈر پاسز اور پلیں تعمیر کرنے کے لئے رکھے گئے، 3 ارب روپے بھی سندھ حکومت نے بچا لئے ، کراچی میگا پروجیکٹس میں سے کراچی چڑیا گھر کی بحالی ، آئی آئی چندریگر روڈ کی بحالی اور بیوٹیفکیشن پر بھی کوئی خرچہ نہیں ہوا، یہ کراچی کے پرانے منصوبے تھے،

رواں مالی سال کے اے ڈی پی میں کراچی شہر کو میگا پروجیکٹ کے طور پر صرف 90 لاکھ روپے لاگت کا ایک نیا منصوبہ صدر کے تجارتی علاقے کی بیوٹیفکیشن اور کچھ سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس کا منصوبہ دیا گیا تھا لیکن اس ایک منصوبے پر بھی ایک روپیہ خرچ نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے لئے بجٹ میں رکھے گئے 17 منصوبوں میں سے 13 منصوبوں پر کوئی خرچہ نہیں ہوسکا ، ان منصوبوں میں کراچی میں ریڈ لائن اور یلو لائن کے نام سے میٹرو بسیں چلانے کے منصوبے بھی شامل ہیں ، محکمہ تعلیم 50 فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ کرسکا ، شعبہ تعلیم کے 108 منصوبوں پر کوئی خرچہ نہیں ہوا ، جن میں جن میں نئے کالج اور اسکولوں کی تعمیر ، صوبے کے مختلف علاقوں میں ارلی چائلڈ ہوڈ اسکولوں کا قیام ، فرنیچر اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل تھے ،

کراچی شہر کو پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور ، منچھر جھیل کو سیم کے زہریلے پانے سے بچانے کے منصوبے آر بی او ڈی ، نئہ گاج ڈیم اور دروات ڈیم منصوبوں پر بھی کوئی خرچہ نہیں ہوسکا، حکومت سندھ کورونا وائرس لاک ڈائون اور برساتی آفتوں سے متاثر غریب شہریوں کی مالی معاونت کے لئے بجٹ میں سماجی تحفظ کے نام کے منصوبے کے لئے مختص کردہ چار ارب روپے میں سے بھی صرف سوا ایک ارب روپے خرچ کرسکی ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا نئے سندھ بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال سی ایم ہائوس اور وزیراعلی کے لئے بجٹ میں 85 کروڑ روپے رکھے گئے تھے لیکن اب اس خرچے کا نظرثانی تخمینہ 99 کروڑ روپے لگایا گیا ہے ۔

وزیراعلی کے ہیلی کاپٹر اور ایئر ٹریولنگ پر 27 کروڑ روپے الگ خرچ ہونگے، ہیلی کاپٹر کی مرمت پر بھی 29 کروڑ روپے خرچ ہوگئے، وزیراعلی ہائوس کی گاڑیوں کی مرمت پر ایک کروڑ الگ خرچہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وائیٹ کالرکرمنل اجرک پہن کرسندھ کی عوام کو کوبیوقوف بنارہے ہیں، موئن جودڑو یادیگرایونٹ اجرک پہننے والوں کی تذلیل کرتے دیکھا گیا ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اجرک سندھ کی ثقافت ہے، بجٹ بک میں غریب عوام کے لئے کچھ نہیں،رام کہانیاں ہیں ایڈزہے، تباہی ہے آج انہوں نے بجٹ بک کوبھی اجرک پہنائی ہے،یہ چورہیں سبسڈی کے نام پرلوگوں کوراشن دیا،سات آٹھ لاکھ کاٹریکٹرنکالا، پنجاب میں بیچ دیا،یونس میمن کے منشی کا بجٹ عوام دشمن ثابت ہوگا۔