حکومت مافیا اور طاقتور طبقے کے خلاف لڑ رہی ہے، وزیر خزانہ کو اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی ہے، ماسک کے استعمال سے کورونا کے پھیلائو میں 50 فیصد کمی آئی ، مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے، وزیراعظم عمران خان

221

اسلام آباد۔11مئی (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہر جگہ مافیا بیٹھے ہیں جو تبدیلی نہیں آنے دے رہے، کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے پر 30 سال تک ملک کو لوٹنے والے ہر طرح کے حربے استعمال کررہے ہیں ، قوم میرا ساتھ دے مافیا کا مقابلہ کر کے دکھائوں گا، طاقتور کو قانون کے نیچے لانا جہاد ہے، بیشک میری حکومت چلی جائے این آر او نہیں دوں گا، شہباز شریف ملک سے باہر بھاگنے کی کوشش کررہا ہے، وزیر خزانہ کو مہنگائی کم کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے، خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں قیمتیں کم ہیں، پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے، ڈر کس بات کا ہے، عدالتوں میں آ کر اپنی صفائی پیش کریں، این آر او کے انتظار میں باہر جا کر کیوں بیٹھے ہیں، کسان خوشحال ہو گئے ہیں، زرعی اصلاحات کررہے ہیں، کسان کارڈ متعارف کرا رہے ہیں، صحت کارڈ سے ملک میں انقلاب آئے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو پی ٹی وی پر ” آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ” پروگرام میں عوام کے براہ راست سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر میں قوم نے تعاون کیا اور تیسری لہر میں بھی اللہ کے فضل و کرم اور خوش قسمتی سے خطے کے دیگر ممالک کی نسبت ہماری صورتحال بہت بہتر ہے، بھارت میں کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث 22 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں لیکن پاکستان الحمد للہ اس صورتحال میں بھارت ، بنگلہ دیش، نیپال اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت صورتحال بہتر ہے۔

وزیراعظم نے قوم کو تاکید کی وہ عید کی چھٹیوں کے دوران خاص طور پر احتیاط سے کام لیں اور اپنا اور اپنے بڑوں کا خیال رکھیں کیونکہ ہم جتنی زیادہ احتیاط کریں گے اتنا جلد اس وبا پر قابو پا لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھار ت میں ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑ ے ہیں،
آکسیجن کی کمی اور بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں لیکن پاکستان میں کیسز تیزی سے نہیں بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ عوام ایس اوپیز پر عمل کریں اور ماسک ضرور لگائیں۔ ماسک لگانے سے کورونا کے خطرے کو 50 فیصدکم کیا جا سکتا ہے ، خاص طور پربند اور اجتماعات والی جگہوں پر ماسک ضرور لگائیں کیونکہ اگر صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے لاک ڈائون کرنا پڑا تو چھابڑی ،ریڑھی والااور دیہاڑی دار بہت متاثر ہوں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ہم نے احتیاط کی تو تیسری لہر سے بھی بخوبی نکل جائیں گے۔ مالاکنڈ سے ایک شہری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 25 سال پہلے جب میں نے پی ٹی آئی بنائی تھی تو میرے پاس شہرت، پیسہ سب کچھ تھا اور مجھے کوئی کام کرنےکی ضرورت نہیں تھی لیکن میں سیاست میں اس لئے آیا تاکہ میں ملک میں انصاف کے نظام کے لئے جدوجہد کروں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں بڑا وقت گزارا۔ وہاں کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھے اور کرکٹ کھیلی اور دنیاکے نظاموں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا اور انہوں نے یہ جانا کہ جو قومیں دنیا کی تاریخ میں ترقی سے ہمکنا رہوئی ہیں ، انہوں نے قانون کی بالا دستی کواپنا یا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنگلوں میں طاقت کا قانون ہوتا ہے اور کمزور جانور طاقتو روں سے چھپتے پھرتے ہیں لیکن انسانی معاشرے میں کمزور اور طاقتور قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے مدینہ کی ریاست میں قانون کی بالا دستی قائم کی اور تعلیم دی کہ جن قوموں نے طاقت ور اور کمزور کے لئے الگ الگ قانون بنائے وہ تباہ ہوئیں۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ کفر کا نظام قائم رہ سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو کوئی انہیں تباہ نہیں کرسکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی اگر جرم کرے گی تو سزا کی حق دا ر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی طاقت ور جرم کرتا ہے تو اس سے ملک تباہ ہوتا ہے۔ حکمران اور ملک کے سربراہ جب پیسہ چوری کر کے باہر بھیجتے ہیں توملک کو دوہرا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ملک کی کرنسی کمزور ہو جاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پینل نے رپورٹ دی کہ ہر غریب ملک سے طاقت ور طبقہ پیسہ بیرون ملک منتقل کررہا ہے اور آف شور اکائونٹس اور فلیٹس بنائے جارہے ہیں۔

ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر غریب ملکوں سے چوری ہو کر باہر جاتا ہے۔ امیر ملک امیر تر اور غریب ملک غریب تر ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے تحت جسٹس منیب نے مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ اس طرح ملک میں قانون کی بجائے طاقت ور کی حکومت قائم ہو گئی۔ نواز شریف نے سویلین ہونے کے باوجود ڈنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور چیف جسٹس کو نکالنے کے لئے پیسہ تقسیم کیا۔ جنرل مشر ف نے بھی چیف جسٹس کو نکالا جس کے خلاف میں نے اور میری پارٹی نے تحریک چلائی اور جیل کاٹی جبکہ دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈر باہر بھاگ گئے تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت عدلیہ ، نیب سمیت کسی بھی ادارے کے نظام میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتی۔ طاقتور کو قانون کے نیچے لانا ایک جہاد ہے۔ 30 سال سے ملک کولوٹنے اور کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے مافیا قانون کی بالا دستی نہیں چاہتے اور جمہوریت کے نام پر ہرطرح کے حربے استعمال کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر مافیا بھی کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھا رہاہے اور نہیں چاہتا کہ یہ نظام ٹھیک ہو۔ میں انصاف کی جدوجہد کے لئے سیاست میں آیا تھا اور ان مافیا کا مقابلہ کرکے اور جیت کردکھائوں گا۔ ہم مافیااور سٹیٹس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور کامیابی حاصل کریں گے۔ قوم اس لڑائی میں میرا ساتھ دے۔ ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کو دنیامیں اجاگرکرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ مغربی دنیا اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کوآگے بڑھانے کے لے انسانی حقوق کے مسائل اٹھاتی ہے لیکن بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک بیوقوفانہ سوچ ہے۔ اس لئے دنیابھول گئی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں سے کیا سلوک ہو رہا ہے اورکشمیر میں انسانی حقوق کس طرح پامال ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی اور دفتر خارجہ کی کوششوں کی بدولت ہندوتوا اور آر ایس ایس کا نظریہ بے نقاب ہوا۔ کشمیریوں پر جس طرح ظلم ہو رہے ہیں دنیا ان کے ساتھ اس طرح کھڑی نہیں ہوئی۔ چین کی اقتصادی ترقی سے خوفزدہ مغربی ممالک بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیاکہ بھارت کی طرف سے کشمیرکی حیثیت کے متعلق 5 اگست کے اقدامات واپس لئے جانے تک مذاکرات نہیں کریں گے۔ اسلام آبادسے ایک خاتون کی کال پر وزیراعظم نے کہا کہ سی ڈی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ سارا نظام ڈیجیٹل اور آن لائن کریں اور ون ونڈو کے ذریعے شہریوں کے مسائل حل کریں۔ ہائوسنگ کے ریگولیٹر ز کےساتھ خود میں نے اجلاس منعقد کئے ہیں اور ہم ریگولیشنز کو کم کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے اسلام آباد سے ایف آئی اے کے ایک اہلکار کی شکایت پر اس کی بحالی کے کیس کا جائزہ لینے کایقین دلایا۔

میونخ جرمنی سے ایک شہری کی شکایت پر وزیراعظم نے کہاکہ ان کی شکایت کا جائزہ لیاجائےگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی سفارتخانوں اور ہمارے دفتر خارجہ نے کشمیرکے حوالے سے سفارتکاری کے میدان میں زبردست کام کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک لائیو پروگرام میں اچھا تاثر نہیں گیا۔ وہ پروگرام لائیو نہیں ہوناچاہیے تھا لیکن ہمارےدفتر خارجہ نے بہترین کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر سفارتخانے کو آن لائن نظام بنانا چاہیے جس کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے سمندر پار پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی شکایات سے وزیراعظم پورٹل ، وزیرخارجہ کے پورٹل اور متعلقہ سفارتخانہ کو بھی آن لان شکایات کے ذریعے آگاہ کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ قونصلر سروسز کو بہتر بنانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد سے ایک شہری کی شکایت پر وزیراعظم نے کہا کہ پانی کا مسئلہ تمام بڑے شہروں میں آنے والا ہے۔ لاہور میں اگر راوی سٹی نہیں بناتے تو وہاں بھی کراچی جیسے حالات پیدا جائیں گے۔ اسلام آباد میں بھی پانی کا مسئلہ موجود ہے۔ شہرتیزی سے پھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے شہری سہولیات کی فراہمی کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ حکومت تمام شہروں کے لئے ماسٹر پلان بنا رہی ہے۔ آبادیاں بلند عمارتوں کی صورت میں بڑھنے کی بجائے پھیل رہی ہیں جس سے زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

یہ صورت حال ایسی ہی رہی تو خوراک کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ حکومت نے بلند عمارتوں کی اجازت دینے کے لئے قواعد تبدیل کئے ہیں۔ اسلام آباد میں پانی کا مسئلہ صرف زمینی پانی سے حل نہیں ہوگا بلکہ دور سے پانی لانے کا بندوبست کرنا ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلی مرتبہ کوئی حکومت ان لوگوں کو گھر بنانے کے لئے پیسہ دے رہی ہے جن کے پاس گھرنہیں۔ پوری دنیا میں بینک گھروں کی تعمیر کے لئے پیسہ دیتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ شرح بہت ہی کم ہے۔

ہم نے ایسا نظام بنایا ہے جس کےذریعے نچلا طبقہ جو پیسہ گھر کے کرائے کی صورت میں دیتا ہے وہی قرضے کی قسط کی صورت میں دے کر گھر کا مالک بن جائے گا۔ ہم نے اس سلسلہ میں قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جس کے بعد اب بینک گھروں کے لئے قرضے دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے سٹاف کو تربیت دیں تاکہ نچلا طبقہ بھی باآسانی بینکوں سے قرضہ حاصل کر سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اس سلسلہ میں آسانیاں پیدا کریں گے۔ حکومت صرف تین فیصد سود پر کم آمدن والے طبقات کو گھروں کے لئے قرضے دے رہی ہے جبکہ تین لاکھ روپے کی سبسڈی بھی فراہم کی جا رہی ہے اس کے علاوہ تعمیراتی کمپنیوں کو ٹیکسوں میں مراعات بھی دی گئی ہیں تاکہ تعمیرات آسان ہو۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایمازون سے نوجوانوں کو اپنی مصنوعات کی برآمد میں آسانی ہوگی۔ حکومت اس سلسلہ میں آسانیاں پیدا کرنے کا جائزہ لے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ مارکیٹوں میں خریداری کے اوقات مقرر کرنے کے حوالے سے کافی بحث ہوئی۔ این سی او سی میں ماہرین اس کا جائزہ لے کر غور کریں گے لیکن عید کی چھٹیوں میں اگر ہم احتیاط سے کام لیں تو ہم لاک ڈائون اور مزید پابندیوں سے بچ سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ویکسین کی تیاری کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ انشا اللہ جلد خوشخبری دیں گے۔

کابینہ کی کارکردگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہر کھلاری سپر سٹار نہیں ہوتا کچھ وزرا بہت اچھا کام کررہے ہیں جو اچھا کام نہیں کریں گے تو انہیں بدلنا پڑے گا۔ منڈی بہائوالدین سے ایک شہری نےدکان پر قبضے کی شکایت کی جس پر وزیر اعظم نے ان کا مسئلہ حل کرانے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ طاقتور لوگ اور قبضہ گروپ غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ کسی بھی شہری کی زمین پر قبضہ ہو تو مجھے آگاہ کیا جائے۔ ہم نے قبضہ گروپوں پرہاتھ ڈالا ہے اور 27 ارب روپے لاگت کی 21 ہزار ایکڑ زمین واگزار کرائی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہے تووہ عدالت میں جا سکتا ہے۔ مریم نواز لاہور میں قبضہ گروپ کے ایک ایم این اے کے ساتھ کھڑی ہوئیں، انہیں عدالت میں جا کر ریکارڈ پیش کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ایسی اصلاحات متعارف کر رہی ہے جن سے زمینوں کے کیس جو سالہا سال چلتے تھے اب ایک سال میں حل ہوں گے۔ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں یہ اصلاحات نافذ ہو چکی ہیں جبکہ پنجاب میں ابھی اس میں کچھ تاخیر ہے جسے دور کررہے ہیں۔

پنجگور سے ایک شہری کی شکایت پر وزیراعظم نے کہا کہ ایران اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگنے سے سمگلنگ ختم ہو گئی ہے جس سے مقامی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان کے روزگار کا دار ومدار اسی سے وابستہ تھا ، ہم ان کے لئے بارڈر مارکیٹس بنا رہے ہیں تاکہ وہ سمگلنگ کی بجائے تجارت سے اپنا روزگار کمائیں۔ ایران سے پٹرولیم کی سمگلنگ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے ہماری معیشت کو 180 ارب روپے کا نقصان ہوتا رہا ہے۔ ہم نے بلوچستان سے باہر پٹرول کی سمگلنگ روک دی ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد 57 فیصد پیسہ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے اور ان کے پاس سارے اختیارات ہیں ۔ فوڈ سکیورٹی کا شعبہ وفاق کے پاس ہے لیکن اختیارات صوبوں کے پاس ہے کہ وہ کب اور کتنی ریلیز کریں گے۔ پنجاب اور سندھ میں گندم کی قیمت میں 400 روپے کا فرق تھا ۔ سندھ نے ہمارے کہنے کے باوجود گندم ریلیز نہیں کی اور قیمتیں اوپر چلی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سندھ اور کراچی کے لئے پیکج تیار کیا ہوا ہے۔ ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ شہباز شریف کا کیس چل رہا ہے ، وہ باہر بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔

ان پر منی لانڈرنگ کا صرف ایک کسی بھی 700 ارب روپے ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ لوگ پیسہ صرف اس وقت ہی ٹی ٹیز کے ذریعے ملک میں لاتے ہیں جب انہیں گاڑیاں ، بنگلے اور گھر خریدنے ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور اس کے بیٹے اربو ں روپے کے گھروں میں رہے ہیں ۔ پورے پاکستان میں چوری کے جرم میں قید تمام قیدیوں نے مل کر اتنی چوری نہیں کی ہو گی جتنی شہباز شریف نے صرف ایک کیس میں کی۔ ان کے ادوار میں لئے گئے قرضوں کی بدولت ہمارا ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

میں کبھی کسی کو این آر او نہیں دوں گا کیونکہ مجھ میں خوف خدا ہے اور میں اللہ کو جوابدہ ہوں۔ میں کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ بڑے لوگوں کوچھوڑ دوں جبکہ عام آدمی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہانگیر ترین یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی جبکہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی کی اور نہ کی کسی پر جھوٹا کیس بنایا۔چینی مہنگی کر کے عوام کو تکلیف پہنچانے والوں کو این آر او نہیں ملے گا۔ خواہ میری حکومت چلی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شوگر ملیں ملک کے بڑے سیاستدانوں کی ہیں۔ ایک روپے چینی مہنگی ہوتی ہے تو پانچ ارب روپے عوام کی جیب سے نکل کر ان بڑے لوگوں کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارے دور میں 25 روپے چینی مہنگی ہوئی،شوگر ملوں نے پانچ سالوں میں 22ارب روپے ٹیکس دیا ہے جبکہ 29 ارب روپے کی سبسڈی لی ہے اور اصل میں جو ٹیکس انہوں نے دیا وہ 10ارب روپے ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زرداری اور شریفوں کی شوگر ملیں ہیں جب چاہیں چینی مہنگی کردیتے ہیں۔

مافیا سے کوئی رعایت نہیں ہوگی لیکن کسی کے ساتھ ناانصافی بھی نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے کہا کہ طاقتور لوگ اکٹھے ہو کر کارٹلز بنا لیتے ہیں اور اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں اور خود ہی اپنی مصنوعات کی قیمتیں طے کرتے ہیں۔ اب پہلی بار کسی حکومت نے فیصلہ کیا ہے اور چینی کی قیمت نیچے آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں وزیر خزانہ شوکت ترین کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ مہنگائی کو کم کریں اور قیمتوں کو نیچے لائیں تاکہ شرح نمو بڑھے تاکہ روزگار کے مواقع پیداہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بھارت، انڈونیشیا، بھوٹان، بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک کی نسبت پٹرول سستا ہے۔

ہم اس پر لیویز لگا کر پیسہ بنا سکتے تھے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ہم عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے اور ان کی مشکلات کا احساس ہے ، اس لئے ہم نے پٹرول کی قیمت دوسرے ممالک کی نسبت کم رکھی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں ایشائے ضروریہ کی قیمتیں اوپر جا رہی ہیں ۔ورلڈ بینک سروے کے مطابق بجلی و گیس کی قیمت 64 فیصد ، کھانے پینے کی اشیا 29.4 فیصد، سریا وغیرہ 41 فیصد، کروڈ آئل 84 فیصد، کاٹن 44 فیصد، پام آئل 54.8 فیصد، سویا بین 36.6 فیصد اور چینی 14 فیصد اوپر گئی۔ مہنگائی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن دنیا کے مقابلہ میں پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجلی مہنگی ہونے سے اشیا کی قیمتیں اوپر جاتی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے بجلی بنانے کے جو معاہدے کئے ہمیں ان کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔

آئی پی پیز کے ساتھ 30،30 سال پرانے معاہدے چل رہے ہیں۔ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ بھی ہم سے پہلے کا ہے۔ کپیسٹی پیمنٹ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نون لیگ کے دور میں 180 ارب روپے کی کپیسٹی پیمنٹس تھیں ، ہماری حکومت کو 484 ارب روپے کی کپیسٹی پیمنٹس ملیں۔ آج یہ بڑھ کر 900 ارب روپے ہو چکی ہیں اور 2023 تک یہ 1455 ارب روپے تک چلی جائیں گی۔ سابق حکومتوں نے جو معاہدے کئے ان کی وجہ سے ہم بجلی استعمال کریں یا نہ کریں یہ پیسہ آئی پی پیز کو دنیا پڑے گا۔ سردیوں میں ہماری بجلی کی ضرورت بہت حد تک کم ہو کر 9000 میگاوٹ پر آجاتی ہے لیکن ہمیں 24 ہزار میگاواٹ تک کے پیسے دینا پڑتے ہیں۔

اس طرح ہم بجلی استعمال کریں یا نہ کریں ہمیں پوری بجلی کے پیسے دینا پڑتے ہیں۔ ہم نے اس معاملے پرآئی پی پیز سے بات چیت کرکے 134 ارب روپے کم کرائے۔ اس طرح 20سالوں میں 770 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ سابق حکومت نے قطر سے ایل این جی معاہدہ 13.37پرسینٹ ریٹ پر کیا۔ ہم نے یہی معاہدہ 10.2 فیصد پر کیا۔ اس سے پاکستان کو ہر سال 300 ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت گیس بھی کم قیمت پر لی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میڈیا میں جو لوگ تنقید کرتے ہیں انہیں کہتا ہوں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں ہے اور میں نے شوکت ترین کو مہنگائی کم کرنے کا ہی ٹارگٹ دیا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت اقدامات کر رہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں دو جماعتیں اقتدار میں رہیں انہوں نے لوٹ مار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نواز شریف اور ان کے بیٹے، شہباز شریف کا بیٹا ، داماد، اسحاق ڈار اور ان کے بیٹے اپنی ہی حکومت کے دوران باہر بھاگ گئے ۔ اگر وہ سچے ہیں تو یہاں آ کر عدالتوں میں اپنی صفائی کیوں پیش نہیں کرتے جبکہ آج پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم عدلیہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انہیں ڈر کس بات کا ہے۔ یہاں آ کر عدالت میں اپنی صفائی پیش کریں۔ میں بیرون ملک سے فلیٹ بیچ کر بینکنگ چینل کے ذریعے پیسہ یہاں لایا تھا۔ میں نے ایک ایک سوال کا جواب دیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف اپنی اور اپنے بچوں کی اربوں روپے کی پراپرٹی مریم نواز اپنے چار بڑے محلات کا حساب نہیں دے سکتے۔ ان کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں۔

مجھے پتہ ہے یہ لندن میں کہاں کہاں رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے بچے رہتے ہیں وہاں برطانیہ کا وزیراعظم بھی نہیں رہ سکتا۔یہ این آر او کے انتظار میں باہر بیٹھے لیکن جب تک میں زندہ ہوں خواہ میری حکومت رہے یا نہ رہے میں ان کو چھوڑوں گا نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اصلاحات سے سالانہ خسارے میں کمی لائے ہیں۔ ہمیں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی خسارہ ورثے میں ملا۔ ہمارے ذخائر 10 ارب ڈالر تک گر گئے تھے اور ہم دیوالیہ ہونے کے قریب تھے۔ آج یہ کرنٹ اکائونٹ سر پلس میں چلا گیا ہے یعنی ڈالر ملک سے باہر کم جا رہے ہیں اور ملک کے اندر زیادہ تعداد میں آ رہے ہیں۔

چین ، سعودی عرب اور یو اے ای پیسہ نہ دیتے تو ہم ڈیفالٹ کر جاتے لیکن آج ہمارے ریزرو بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ روپیہ گر رہا تھا کیونکہ ڈالر کی کمی تھی۔ آج روپیہ مستحکم ہو رہا ہے، برآمدات بڑھ رہی ہیں جبکہ نون لیگ کے دور میں برآمدات میں صفر گروتھ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں قرضوں کی قسطیں نہ دینا پڑتیں تو ہم 410 ارب کے سرپلس میں چلے جاتے ۔ ایف بی آر میں 11 فیصد آمدن بڑھی ہے ۔ مارچ میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں کورونا کی صورتحال کی وجہ سے کچھ کمی ہوئی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں بہتری میں آئی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں لیبر نہیں مل رہی۔ سیمنٹ کی سیلز میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔ تعمیراتی صنعت اوپر اٹھ گئی ہے جس کے ساتھ30 مزید صنعتیں وابستہ ہیں۔

ابھی اس میں مزید بہتری آئے گی اور موٹر سائیکل فروخت میں 21فیصد، ٹریکٹرکی فروخت میں 58 فیصد، گاڑیوں کی فروخت میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ انڈس موٹر کی گاڑیوں کی فروخت میں سب سے زیادہ اضافہ اب دیکھنے میں آیا ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج 66 فیصد اوپر گئی ہے۔ آئی ٹی میں 44 فیصد ایکسپورٹ بڑھی ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ کسان خوشحال ہوا ہے ۔ پہلی مرتبہ گنے کے کاشتکاروں کو اتنا پیسہ ملا ہے ۔ گنے کی 22 فیصد پیداوار بڑھی ہے ۔ مونگ اور چاول کی پیداوار بھی 13 فیصد بڑھی ہے۔ گندم کی مد میں 500 ارب روپے کسانوں کے پاس اضافی گئے ہیں۔ مکئی کی پیداوار میں 27.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لائیوسٹاک کے شعبہ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے پاس 1100 ارب روپے اضافی گئے ہیں۔ 65 فیصد پاکستانی جو دیہات میں رہتے ہیں ان کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ ہم کسانوں کے لئے کسان کارڈ لے کر آئے ہیں جس کے ذریعے انہیں براہ راست سبسڈی مل سکے گی۔ مشکل میں انہیں براہ راست پیسہ دیں گے۔ کوئی مڈل مین نہیں ہو گا جو ان کا پیسہ کاٹ سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے لوگوںکو کورونا کی بیماری سے بھی بچایا اور کورونا کے باعث معاشی حالات کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بھی۔

ایک شہری کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت آئی ہے جو ماحولیات کے لئے کام کررہی ہے۔ ہم نے کے پی کے میں ایک ارب درخت لگائے ۔ ملک بھرمیں 10 ارب درخت لگا رہے ہیں۔ اس سے شہروں میں آلودگی کم ہو گی۔ شہروں کے لئے ماسٹر پلان بنا رہے ہیں۔ بائی لاز کو بہتر بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد میں پہلی بار ہم نے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو چالو کیا ۔ شہروں میں میاواکی طرز پر جنگلات لگائیں گے۔ ملک میں 20 نئے ساحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی اور ان کے لئے بائی لاز بنائے جائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے بالخصوص 27 ویں شب کو فلسطینیوں پر ظلم قبل مذمت ہے۔

میں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ترکی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کرنے کو کہا ہے ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی اس معاملے پر بات کی ہے۔ اسلامو فوبیا کے مسئلے پرمسلمان مل کر مغرب کے ساتھ بات کریں گے تو اثر ہو گا۔ وزیراعظم نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہم زراعت پر اب سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں ۔ ہم نے زرعی اصلاحات کے لئے زبردست کام کیا۔65 فیصد کسانوں کے پاس 5 ایکڑ سے کم زمین ہے۔ کسان کارڈز کی فراہم کے لئے کسانوں کو نئی تکنیک سیکھائیں گے۔ چین کی مدد سے زرعی تحقیق کے اداروں کو ٹھیک کریں گے۔

طویل المدت منصوبہ بندی کریں گے، پیداوار بڑھائیں گے۔ دودھ کی پیداوار اور جانوروں کی نسل بہتر بنانے کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ وزیر اعظم نے سوال و جواب کے سیشن کے اختتام پر قوم پر زور دیا کہ دو چیزیں ہمیں خاص طورپر کرنا ہیں جس کے ذریعے ہماری قوم اوپر اٹھ سکتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں قانون کی بالادستی قائم کرتے ہوئے طاقتور کو قانون کے نیچے لانا ہے۔

ہر جگہ اور ادارے میں مافیاز بیٹھے ہیں جو تبدیلی نہیں آنے دے رہیں کیونکہ وہ کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھ رہے ہیں۔ طاقت ور کو قانون کے نیچے لانے سے میرٹ کا نظام آئے گا جس سے معاشرہ اوپر اٹھے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کے لئے خصوصی پیکج دیئے جائیں گے اس طرح پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ صحت کارڈ سے ہر غریب گھرانے کو ہیلتھ انشورنس ملے گی۔

خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ فراہم کردیئے گئے ہیں۔ پنجاب میں بھی رواں سال ہر شہری کو ہیلتھ انشورنس فراہم کردی جائے گی اور اس سے صحت کا انقلاب آئے گا اور ہسپتالوں کو جال بچھ جائے گا۔ 50 سال بعد ملک میں دو بڑے ڈیم تعمیر کئے جا رہے ہیں ۔ راوی سٹی اور سنٹرل ڈسٹرکٹ والٹن دو بڑے شہر بن رہے ہیں۔ اس سے اربوں روپے کی غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی اور دولت کی پیداوار ہو گی۔ وزیر اعظم نے قوم کو عید کی پیشگی مبارکباد دیتے ہوئے بار بار تاکید کہ وہ اس عید کو مختلف انداز میں منائیں اور ایس او پیز کی پابندی کرتے ہوئے ماسک لازمی استعمال کریں۔