اسلام آباد۔15فروری (اے پی پی):وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطی امور اور پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ سانحہ خانیوال میں 112 مشتبہ افراد حراست میں ہیں ، 10مرکزی ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں ، سانحہ سیالکوٹ و خانیوال جیسے واقعات ناقابل قبول ہیں، معاشرے کے تمام طبقات کو اس طرح کے واقعات کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ، پیغام پاکستان امن کمیٹیوں کی یونین کونسل کی سطح پر تشکیل کا عمل شروع کر دیا ہے ، انتہا پسند اور تشدد پسند عناصر کے خاتمے کیلئے فکری ، نظریاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ قانون کی بالا دستی کی ضرورت ہے ، پولیس اور سلامتی کے اداروں نے سانحہ سیالکوٹ میں بہترین کردار ادا کیا ہے ، سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد سے پولیس کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، پولیس ، سلامتی کے اداروں کے ساتھ قانون کی بالا دستی کیلئے ہر سطح پر تعاون کرنا ہو گا ، قندیل بلوچ کے قاتلوں کی رہائی واضح کرتی ہے کہ نظام عدل میں اصلاحات کی ضرورت ہے ، قندیل بلوچ کے قاتلوں کی رہائی غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کیلئے حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتا ہے ، یہ عدلیہ کا نہیں سسٹم کا سقم ہے۔ یہ بات انہوں نے یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر مولانا نعمان حاشر ، مولانا طاہر عقیل اعوان ، پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر صدیق ، مولانا ذوالفقار ، صاحبزادہ حافظ ثاقب منیر حسینی اور دیگر بھی موجود تھے ۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ اور خانیوال میں پوری قوم کی متفقہ آواز ہے کہ مجرموں کو فوری سزا دی جائے ، محترم چیف جسٹس آف پاکستان انتہائی معاملہ فہم اور حالات کا ادراک رکھنے والی شخصیت ہیں ، وہ دین ، شریعت او ر ملک کے حالات کو سمجھتے ہیں ، ہماری گذارش ہے کہ ان واقعات کے سپیڈی ٹرائل کا حکم دیا جائے ، توہین ناموس رسالتؐ ، توہین مذہب ، خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا سپیڈی ٹرائل ہو ۔
ایک سوال کے جواب میں حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ کے مجرمین کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے ، اسی جذبہ کے ساتھ سانحہ خانیوال پر بھی کام ہو رہا ہے ، ملک بھر کے علماء و مشائخ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں ، دارالافتاء پاکستان فتویٰ جاری کر چکاہے کہ اگر کوئی جرم بھی کرے تو سزا دینے کا اختیار صرف اور صرف حکومت عدلیہ کا ہے ۔
ایک اور سوال کے جواب میں حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل کا معاملہ موجودہ قوانین کے مطابق حل ہوا ہے لیکن قتل کے بعد یہ واضح تھا کہ ماں ، باپ اپنے بچوں کو معاف کر دیں گے ، اس حوالہ سے ضرورت ہے کہ نظام عدل میں اصلاحات لائی جائیں ، یہ عدالتی سقم نہیں نظام کا سقم ہے ۔