اسلام آباد۔14دسمبر (اے پی پی):وزیر صنعت و پیداوار سید مرتضی محمود نے کہا ہے کہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین افرادی قوت کو صنعتی یونٹس کے ساتھ کام کرنے کی تربیت دی جائے گی تاکہ ان کی سماجی و اقتصادی حیثیت کو بلند کیا جا سکے اور دیہی ترقی بھی ہو سکے۔ ، وزیر نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پاکستان انڈسٹریل ٹیکنیکل اسسٹنس سینٹر ( پی آئی ٹی اے سی )سے آگاہی مہم شروع کرنے اور ہنر سیکھنے کی تربیت میں داخلہ لینے والی خواتین کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر نے منگل کو یہاں وزارت سے منسلک محکموں کے سربراہان کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا جبکہ سرجیکل انسٹرومنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان (سماپ)سیالکوٹ کے وفد نے خصوصی طور پر شرکت کی۔
نیشنل پروڈکٹیوٹی آرگنائزیشن(این پی او)کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، عالمگیر چوہدری نے سیالکوٹ میں کام کرنے والی 9 فیکٹریوں میں خاص طور پر برآمدی صنعتوں میں پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے، چین مینجمنٹ، انوینٹری مینجمنٹ، انرجی مینجمنٹ اور کوالٹی پروڈکشن کی جانچ پڑتال کے بارے میں تفصیلات کے بارے میں آگاہ کیا۔سماپ کے چیئرمین، یوسف حسن باجوہ نے پاکستان کی سرجیکل برآمدات کی غیر ملکی برانڈنگ کی تجویز پیش کی اور عالمی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی برانڈ ز کی ساکھ کو نئی شکل دینے کے لیے ایک کمپنی بنانے کے لیے حکومت سے تعاون کا مطالبہ کیا۔وزیر نے برآمدات کی عالمی برانڈنگ کے حوالے سے سماپ کے خیال کی حوصلہ افزائی کی اور ایسوسی ایشن کو مشورہ دیا کہ وہ اسے نجی سطح پر اٹھائے۔
انہوں نے اس انتہائی اہم تجویز کے لیے ہر سطح پر حکومتی تعاون کا بھی یقین دلایا۔وزیر نے سیالکوٹ کے کھیلوں کے سامان کی کامیابی کی کہانی کو دیگر مصنوعات کی عالمی مارکیٹ پروفائل کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنے کی تجویز دی۔ایک اور پہلو یورپی اور وسطی ایشیائی منڈیوں میں برآمدات کے لیے طبی آلات کے حوالے سے ٹیسٹنگ اور سرٹیفیکیشن کا فقدان تھا۔ اس وقت صرف ایس جی ایس یہ سہولت فراہم کر رہا ہے جو کہ بہت مہنگی ہے اور پاکستان میں تمام سرجیکل کمپنیوں کی سرٹیفیکیشن بھی نہیں کر سکتی۔
سماپ کے چیئرمین نے بتایا کہ یہ ایک سال میں 30 سے 35 کمپنیوں کا سرٹیفیکیشن لے سکتا ہے۔پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی( پاسڈیک )کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بابر معراج شامی نے پاکستان میں گرینائٹ اور ماربل انڈسٹری کے حوالے سے مارکیٹ پلان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر مصنوعات کی بلاسٹنگ کے ذریعے کان کنی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پروڈکٹ کا 70 فیصد نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے صوبائی حکومت کے ساتھ مسئلہ اٹھا کر اس عمل کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ چین، امریکہ، اٹلی، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا بھر میں منعقد ہونے والے مختلف میلوں میں لگائے جانے والے سٹالز اور اس کے علاوہ چین اور اٹلی میں ویئر ہائوسز قائم کرنے کے لئے مالی اعانت کی جائے۔