اسلام آباد۔16ستمبر (اے پی پی):اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے كہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا مظلوم طبقہ ہے جن كے حقوق كے تحفظ کے لیے قانونی اور عملی اقدامات اٹھانا ضروری ہیں ۔ جمعہ کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ شریعت میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔ مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا مسئلہ متعدد مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ رہا ہے۔
پہلی بار کونسل میں یہ معاملہ تب زیربحث آیا جب وزارت مذہبی امور نے مخنث بچوں کو وراثت میں حصہ دلانے کے لیے "مسلم عائلی قوانین آرڈیننس (ترمیمی) بل 2012” کونسل کو بھجوایا ۔ کونسل نے اپنے اجلاس نمبر 189، مورخہ 24 دسمبر 2012 میں اس بل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے شرعی احکام کی روشنی میں دوبارہ ڈرافٹ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی مخنث افراد کو وراثت میں حقوق دلانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا۔
آخری بار سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ میں پیش کردہ مسودہ بل "مخنث افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل 2017″اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس نمبر 209 مورخہ 17 جنوری 2018 میں زیرغور آیا۔ کونسل کے سامنے اس موضوع سے ملتے جلتے دیگر بلز بھی پیش کیے گئے جن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مخنث سے متعلق وضع کردہ پالیسی اور انسانی حقوق کمیشن کا تیار کردہ مسودہ بل بھی شامل ہیں۔
کونسل نے خواجہ سرا کمیونٹی ، نادرا ، سماجی تنظیموں اور ماہرین قانون وشریعت سے تفصیلی مشاورت کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ بل متعدد دفعات کے غیر شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔ اس سلسلے میں کونسل کی طرف سے بلوں کے مسودات پر شق وار تفصیلی اور ترمیمی سفارشات دی گئیں۔تاہم بعدازاں اس موضوع پر جب باقاعدہ قانون سازی ہوئی اور مئی 2018 میں خواجہ سرائوں (کے حقوق کے تحفظ کا) ایکٹ، 2018 منظور ہوكرملکی قانون بن گیا، تو کونسل نے اپنی سفارشات میں جن خامیوں کی نشاندہی کی تھی ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی تھی۔
کونسل نے وزارت انسانی حقوق کے استفسار پر اجلاس نمبر 228 منعقدہ مورخہ 18-19 مئی 2022ء کو اس قانون کا جائزہ لیا اور قانون میں موجود خامیوں کے حوالے سے اپنی سفارشات وزارت قانون، وزارت انسانی حقوق اور وفاقی شرعی عدالت کو ارسال کردی ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آج یہ قانون معاشرے میں زیر بحث ہے ۔
ضروری ہے كہ قانون میں ایسی جامع ترامیم لائی جائیں جو شرعی احكام، آئین پاكستان کی عکاس، ٹرانس جینڈرز كے حقیقی مسائل كے ادراک پر مشتمل ہوں اور قانون میں اس طبقے کے مسائل ومشكلات كے حل كے لیے راستے موجود ہوں۔