خیبرپختونخوا میں پانچ سال کے دوران خواتین اور بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے 1122 کیس رپورٹ ہوئے

236
خیبرپختونخوا میں پانچ سال کے دوران خواتین اور بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کے 1122 کیس رپورٹ ہوئے

پشاور۔ 02 اکتوبر (اے پی پی):خیبرپختونخوا میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 1122کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔ صوبائی محکمہ داخلہ کی دستاویزت کے مطابق 2019 میں 259، 2020 میں 299، 2021 میں 125، 2022 میں 365 اور 2023 میں اب تک 74 ریپ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال 2019 سے اب تک 581 ملزمان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے ہیں۔ ان میں

494 ملزمان عدالتوں سے بری ہوئے جبکہ صرف 87 ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔ بچوں کے ریپ کیسز میں ملوث 153 ملزمان بری ہوئے جبکہ 64 کو سزائیں ہوئیں۔اسی طرح خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث 341 ملزمان پر جرم ثابت نہ ہوسکا اور صرف 23 مجرموں کو سزائیں ہوسکیں۔ ریپ کے ملزمان کو سزا کی شرح 14.97فیصد ہے۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ خواتین سے جنسی زیادتی کے ملزمان کو سزا کی شرح صرف 6.31فیصد اور بچوں کے ریپ کیسز کے ملزمان کو سزا کی شرح 29.49فیصد ہے۔بچوں کے ریپ کیسز میں ملوث 14 مجرموں کو 2019 میں،12 کو 2020 میں، 22 کو 2021 میں، 11 کو 2022 میں اور 5 مجرموں کو 2023 میں سزائیں ہوئی ہیں۔اسی طرح خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے 3 مجرموں کو 2019 میں، 6 کو 2020 میں، 7 کو 2021 میں اور 7 کو 2022 میں سزائیں سنائی گئیں ۔ 2023 میں کسی ملزم کو تاحال سزا نہیں ہوئی۔

دستاویز کے مطابق 300 سے زائد ملزمان کے خلاف مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔بچوں اور خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں ریپ کیسز کی تعداد رپورٹ شدہ سے 10 گنا زیادہ ہے تاہم عزت اور معاشرے میں لوگوں کے رویے کے باعث کیسز سامنے نہیں آتے ہیں جبکہ کئی متاثرہ لوگوں میں ریپ کیس رپورٹ کرنے سے متعلق آگاہی کا بھی فقدان ہے۔ عمران ٹکر کا کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کے لیے لوگ کیس رپورٹ کرتے ہیں تاہم انصاف کا حصول انتہائی مہنگا اور پیچیدہ ہے جس کے باعث ریپ کیسز رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم عورت فانڈیشن کی صائمہ نے کہا کہ پولیس کے پاس رپورٹ ہونے والے ریپ کیسز کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریپ کو رپورٹ کیا تو معاشرے میں ان کی عزت ختم ہوجائے گی جبکہ ریپ کیسز کے ملزمان کی سزا کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئےبھی لوگ ریپ جیسے سنگین جرم کو چھپاتے ہیں۔