اسلام آباد۔2فروری (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان کا تین رکنی بینچ خیبر پختونخوا (کے پی کے ) کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت 6 فروری کو کرے گا۔ اس بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کریں گے۔واضح رہے کہ کے پی کی 19 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی نشستیں گزشتہ ڈیڑھ سال سے خالی ہیں۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے فروری 2024 میں نگران حکومت کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عمل کرنے سے گریز کیا۔یہ نشستیں 2022 میں سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں مشتہر کی گئی تھیں لیکن امیدواروں کے انٹرویوز نہیں کرائے گئے جس کی وجہ سے یہ معاملہ نگران حکومت کے سپرد کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے اجازت حاصل کرنے کے بعد نگران حکومت نے انٹرویوز مکمل کر کے ہر یونیورسٹی کے لیے تین امیدواروں کے پینل تیار کیے۔
اس دوران اکیڈمک سرچ کمیٹی (ASC) کے تین ارکان نے استعفیٰ دے دیا اور نگران حکومت نے معمول کے مطابق نئے ارکان تعینات کیے تاکہ عمل جاری رکھا جا سکے۔ جنوری 2024 کے آخر تک یہ عمل مکمل کر لیا گیا لیکن انتظامی رکاوٹوں کے باعث فائل گورنر کے پی تک حتمی منظوری کے لیے نہیں پہنچ سکی۔اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے ان سفارشات کو مسترد کر دیا اور جولائی 2024 میں دوبارہ اشتہارات دینے اور نئی ASC بنانے کا فیصلہ کیا۔ جس میں ایک رکن کے علاوہ باقی تمام وہی افراد شامل کیے گئے۔
سرفہرست امیدواروں میں سے بعض نے اگست 2024 میں اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ (PHC) میں چیلنج کر دیا۔حکومت نے ہائی کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ نگران حکومت کی جانب سے ASC کے تبدیل کیے گئے ارکان کی قانونی حیثیت نہیں تھی کیونکہ ای سی پی کی منظوری لازمی تھی۔
درخواست گزاروں نے مو قف اپنایا کہ اگرچہ نگران حکومت نے وائس چانسلرز کی تقرری کے عمل کے لیے ای سی پی سے اجازت لی تھی لیکن صرف 28 دن کے لیے کچھ ارکان کی تبدیلی ایک معمول کا معاملہ تھا اور اس کے لیے ای سی پی کی منظوری ضروری نہیں تھی۔
22 اگست 2024 کو پشاور ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا اور حکومت کو قانون کے مطابق عمل مکمل کرنے کی ہدایت دی۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت نے ستمبر 2024 میں سپریم کورٹ میں سِول پٹیشن (CPLA) دائر کر دی۔ سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت 6 فروری کو کرے گی۔فی الوقت کے پی کے کی 34 میں سے 25 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز تعینات نہیں ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ صوبائی حکومتیں ایسی آسامیوں کو چھ ماہ سے زیادہ خالی نہ رکھیں۔
اس صورتحال کے باعث یونیورسٹیاں شدید مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم کو ترجیح دینے کا دعوی کرنے والی پی ٹی آئی حکومت نے 34 یونیورسٹیوں کے لیے صرف 3 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ بلوچستان نے 11 یونیورسٹیوں کے لیے 5 ارب روپے، سندھ نے 26 یونیورسٹیوں کے لیے 32 ارب روپے اور پنجاب نے 52 یونیورسٹیوں کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
اس حوالے سے کے پی کے کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے پی ٹی آئی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر یونیورسٹیوں کو مالی بحران میں دھکیل رہی ہے۔ اساتذہ نے نشاندہی کی ہے کہ کے پی کے کی کئی یونیورسٹیاں ایسے علاقوں میں واقع ہیں جہاں سیکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں۔ کمزور انتظامی ڈھانچے کے باعث یونیورسٹی ہاسٹلز بعض عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے طلبہ اور عملے کو مشکلات کا سامنا ہے۔