اقوام متحدہ ۔11فروری (اے پی پی):پاکستان نے افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ داعش، ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ پورے خطے اور اس سے باہر کے لئے خطرہ ہیں ۔ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نےسلامتی کونسل میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو داعش کی طرف سے لاحق خطرے پر سیکرٹری جنرل کی 20 ویں سالانہ رپورٹ پر بحث کے دوران کیا۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ عالمی برادری ریاستی دہشت گردی بشمول حق خود ارادیت کے لئے جائز جدوجہد کو دبانے یا غیر ملکی قبضے کو جاری رکھنے کے لئے ریاستی طاقت کے استعمال سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے ۔انہوں نے کشمیری اور فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کو دبانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر حق خودارادیت اور غیر ملکی قبضے کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ عالمی سطح پر خاص طور پر مشرق وسطیٰ، افریقہ اور افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف موثر کارروائیاں کی گئیں ۔ القاعدہ کا افغانستان میں خاتمہ بڑی حد تک پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے ہے تاہم کئی دیگر مقامات بشمول شمالی افریقہ اور سب صحارا افریقہ میں پر القاعدہ کی کئی ذیلی تنظیمیں ابھری ہیں ۔ افغانستان کے اندر دو درجن سے زیادہ دہشت گرد گروپ کام کر رہے ہیں جو داعش خراسان کی بھرتی اور سہولت کاری کا اہم مرکز بھی ہے ۔
انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ داعش خراسان کی طرف سے پاکستان سے ایسی کوئی افرادی قوت حاصل کی گئی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی مندوب نےزور دیا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خطرے سے مل کر، ایک جامع، مربوط اور اصولی حکمت عملی کے ذریعے نمٹنا چاہیے جو جنرل اسمبلی کی طرف سے اختیار کی گئی عالمی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی ( جی سی ٹی ایس )پر مبنی ہو۔انہوں نے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو بھی حل کرنے پر زور دیا جن میں غربت، ناانصافی اور طویل حل طلب تنازعات، غیر ملکی قبضے اور نوآبادیاتی اور غیر ملکی تسلط اور اجنبی حکمرانی کے تحت لوگوں کے حق خودارادیت سے انکار شامل ہیں جیسے کہ فلسطین اور جموں و کشمیر میں ہے۔
بنیادی وجوہات کو حل کئے بغیر اگر ہماری توجہ ایسی پالیسیوں کے نتائج تک محدود رہے تو ہم بہت کم کامیابی کی امید کر سکتے ہیں۔ حق خود ارادیت اور غیر ملکی قبضے کے حالات میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والو ں کا احتساب ہونا چاہیے ۔ اس تناظر میں پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے اور پابندیوں کے نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ موجودہ چیلنجز کا جواب دینے اور ایک منصفانہ اور جامع طریقہ کار کی نمائندگی کرنے کے لئے مناسب وسائل کا حامل ہو ۔ ہمیں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے دہشت گردوں کی طرف سے استعمال کئے جانے والے نئے سائبر ٹولز بشمول ڈارک ویب اور کرپٹو کرنسیز جن کا استعمال شدت پسندی کی مہم، تشدد پر اکسانے، دہشت گردی کی مالی معاونت، پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے کے لئے کیا جا رہا ہے، سے بھی نمٹنا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں دہشت گردی کی نئی اور ابھرتی ہوئی شکلوں بشمول سفید فام بالادستی، انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں، پرتشدد قوم پرست، فاشسٹ، زینو فوبک، اسلامو فوبک اور مسلم مخالف گروہوں اور دنیا کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے نظریات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں میں اب تک صرف ایک مذہب اسلام کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن انہیں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اسلامو فوبیا کے شعلوں کو بھڑکانے کے منفی اثرات کو دور کرنا چاہیے۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل اور انسداد دہشت گردی کے دفتر کے سربراہ ولادیمیر وورونکوف نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو ختم کرنے کی برسوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود داعش عالمی سلامتی کے لئے ایک سنگین اور ابھرتا ہوا خطرہ ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی ریاست اکیلے نہیں کر سکتی۔اس موقع پر کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹوریٹ ( سی ٹی ای ڈی ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ گرمن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔