دریاؤں میں 2040ء تک مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہو گا، یو این ای پی‎‎

139

اسلام آباد۔19جولائی (اے پی پی):دنیا کے دریاؤں اور سمندروں میں 2040ء تک مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہو گا، ہماری زمین پلاسٹک میں ڈوبتی جارہی ہے، پلاسٹک کے آسان، سستا اور پائیدار ہونے کی وجہ سے گزشتہ 70 سالوں کے دوران اس کی پیداوار اور کھپت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام (یو این ای پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ستر سال میں 9 ارب 20 کروڑ ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا جو ماحولیات اور انسانی زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پلاسٹک کا استعمال معیشتوں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے اور زرعی شعبہ میں اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ شعبہ میں پلاسٹک کی وجہ سے زمین کی زرخیزی اور پیداوار میں کمی ہو رہی ہے جو غذائی قلت کا ایک بڑا سبب بن رہی ہے۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی زمینیں بڑے پیمانے پر پلاسٹک سے آلودہ ہیں۔ زرعی شعبہ میں سالانہ ایک کروڑ 25 لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا استعمال کی جاتی ہیں جو زیادہ تر فصل کی پیداوار اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح اشیا خور و نوش کی پیکنگ میں بھی 3 کروڑ 77 لاکھ ٹن پلاسٹک استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں زرعی پیداوار میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ استعمال ایشیا میں ہوتا ہے جو عالمی کھپت کے تقریباً نصف کے قریب ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ قابلِ عمل متبادل کی عدم موجودگی کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے ماحول دوست حل تلاش کرنے اورپلاسٹک کی بڑے پیمانے پر تیاری اور استعمال اس کے فضلی کے بروقت اور مناسب انتظام کار کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایک مرتبہ استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات جن میں پانی کی بوتلیں، شاپنگ بیگز اور پیکیجنگ کا دیگر سامان شامل ہے جو ماحول کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان کے گلنے میں 400 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ پاکستان نے بھی کئی دیگر ممالک کی طرح پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کو مؤثر بنانے کے لیے اس پابندی کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی آلودگی اور اس کی بین الاقوامی نوعیت کی وجہ سے قومی اور مقامی سطح پر اقدامات ناکافی اور کم مؤثر ثابت ہورہے ہیں جس کی وجہ سے پلاسٹک کی آلودگی ماحولیات کے شعبہ کیلئے عالمی خطرہ بن چکی ہے۔ یونائیٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کے مطابق ہر سال ایک کروڑ 90 لاکھ سے 2 کروڑ 30 لاکھ ٹن پلاسٹک دریاؤں میں جاتا ہے اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو 2040 تک دریاؤں اور آبی گزرگاہوں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہو گا۔رپورٹ کے مطابق ضائع شدہ پلاسٹک گلنے کے بعد مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آبی حیات کو مزید آلودہ کر دیتا ہے اور فوڈ چین میں داخل ہو جاتا ہے۔پلاسٹک کے فضلہ کی بین الاقوامی تجارت سے غریب ممالک کے لیے سنگین نتائج پیدا ہوتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے فضلے کی بڑی مقدار ترقی پذیر ممالک بھجوا دی جاتی ہے جہاں فضلے کے انتظام کا محدود بندوبست ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان بھی صنعتوں اور ری سائیکلنگ میں استعمال کے لیے پلاسٹک کا فضلہ درآمد کرتا ہے جس سے مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پلاسٹک کے فضلہ کو محفوظ طریقہ سے ٹھکانے لگانے کے حوالہ سے بین الاقوامی تعاون کے فروغ سے پلاسٹک کے فضلہ کی غیر قانونی تجارت کے خاتمہ اور ماحولیاتی نقصان کو کم سے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ اس سلسلہ میں ریگولیٹری اقدامات اور عوام الناس مین شعور اجاگر کرنے کے حوالہ سے پرعزم ہے۔

اقوامِ متحدہ 2024ء تک پلاسٹک کی آلودگی پر ایک بین الاقوامی اور قانونی طور پر پابند معاہدہ تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ پلاسٹک کے مکمل لائف سائیکل پر کام کیا جا سکے جس میں اس کی پیداوار، ڈیزائن اور اسے محفوظ طور پر ٹھکانے لگانا بھی شامل ہے۔ جس سے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی اور فضلے کے بحران سے نمٹنے میں آسانی پیدا کی جا سکے گی۔

اس کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت عالمی برادری کو پالیسی سازی، پلاسٹک کے ماحول دوست متبادل کے لئے تحقیق کو فروغ دینے اور سرکلر معیشت میں سرمایہ کاری کے لئے نجی سرمائے کو متحرک کرنے کے ذریعے قابلِ عمل حالات تیار کرنے ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ دو سا میں معاہدے کی تیاری کے عمل کے دوران حکومتوں، صنعتوں، کاروباری اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اس چیلنج سے نمٹنے اور پلاسٹک کی قلیل مدتی سہولت کو نظر انداز کرتے ہوئے متوازن اور صحت مند ماحولیاتی نظام کے مقصد پر توجہ مرکوز کریں جو ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے ضروری ہے۔