لاہور۔25نومبر (اے پی پی):چیئرمین پاکستان علما کونسل و نمائندہ خصوصی وزیراعظم برائے بین المذاہب ہم آہنگی ومشرق وسطی حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہاہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا ہو گا، پاکستان میں اقلیتوں کوتمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اورملک میں امن اور بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کے لیے اقلیتوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار ہفتہ کوحضوری باغ بادشاہی مسجد لاہور میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔طاہر اشرفی نے کہا کہ نگران حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ٹھو س اقدامات کر رہی ہے ، حضوری باغ بادشاہی مسجد لاہور میں آج کا یہ پروگرام تاریخی بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے میں ہو رہا ہے جہاں ایک طرف بادشاہی مسجد ہے اور ایک طرف علامہ محمد اقبال بھی یہاں پرآرام فرما رہے ہیں اوراس کے اطراف میں دیگر مذاہب کے مراکز بھی موجود ہیں،
پاکستان میں ہر شہری کو اپنے اپنے مذہب اورمسلک کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل آئینی اور قانونی حق حاصل ہے اور یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔انہوں نے شرکا کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے آبائو اجداد نے جو پاکستان بنایا تھا اس کا آئین اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں رہنے والے برابر ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ۔انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ میں نے 57اسلامی ممالک کے آئین اور قانون کو پڑھا ہے مگر پاکستان کے آئین اور قانون سے زیادہ اسلامی کوئی قانون نہیں جو قران و سنت کے تابع ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد کرنی ہے جہاں مسلمان ہو یا مسیحی بچی وہ یہ نہ کہے کہ مجھے سکول جانے سے ڈر لگتا ہے
،کسی مسیحی یا مسلم کو اپنی عبادت گاہ میں جاتے ہوئے خوف محسوس نہ ہو ۔طاہر محمود اشرفی نے کہاکہ گزشتہ دنوںجڑانوالہ کے افسوسناک واقعہ کے بعد ہم نے کھڑے ہو کے اپنی مسیحی برادری سے معافی مانگی کیونکہ جو زیادتی کرتا ہے معافی بھی وہی مانگتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مذہبی جذبات بھڑکانے اور تشدد پر اکسانے کے یہ روئیے دنیا کے امن کے لئے مہلک ، قابل نفرت اور قابل مذمت ہیں،آزادی اظہار رائے اور احتجاج کی آڑ میں مذہبی منافرت پر مبنی اشتعال انگیز کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی،بین الاقوامی قانون مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر نفرت اور امتیازی سلوک کوممنوع قرار دیتا ہے۔
طاہر اشرفی نے کہاکہ پاکستان کا دفاع سلامتی اور تحفظ آپ میری اور ہم سب کی ذمہ داری ہے ،جو قومیں اپنی افواج کے ساتھ لڑ پڑتی ہیں یا سلامتی کے اداروں اور فوج کے درمیان تقسیم پیدا کر تی ہیں اور مختلف مذاہب و مسالک کو لڑا دیا جاتا ہے وہاں کے معاملات بہت خراب ہو جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ لیبیا کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں تو کوئی روٹی کا مسئلہ نہیں تھا وہاں تو کوئی امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا وہاں تو کوئی کافر بھی نہیں تھا بس سوشل میڈیا پر ایک خوبصورت سا نعرہ دیا گیا ،20ہزار نوجوانوں کو نیو لیبیا کے عنوان پر تیار کیا گیا او ر آج اس کے حالات آپ سب کے سامنے ہیں جہاں بھائی نے بھائی کو مار ڈالا ‘اسی طرح عراق ، شام اور یمن کے حالات ہمارے سامنے ہیں
اس لیے ہمیں دشمن کی چالوں سے محتاط رہنا ہوگا اور ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ہو گا اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہو گا جس میں رواداری ہو برداشت ہو۔انہوں نے کہاکہ9 مئی کے واقعات میں جناح ہائوس کی بربادی کو پوری قوم نے دیکھا ہے اس لیے اس واقعہ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا تاکہ آئندہ کوئی ملکی سالمیت کے ساتھ کوئی نہ کھیل سکے،آج پاکستان میں جو استحکام آ رہا ہے اس لیے کہ ایک پالیسی متعین کی گئی ایک کونسل بنائی پاک فوج اور حکومت نے مل کر سرمایہ کاری سہولت کار کونسل میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں ‘ کویت نے10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
طاہر محمود اشرفی نے کہاکہ جہاںتک بین المذاہب بین المسالک مکالمے کی بات ہے یہ ہمارے دین کا حکم ہے ہم نے اس پر عمل کرنا ہے ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جانتے ہوئے بھی منافقوں کو کچھ نہیں کہا لیکن بعض اوقات وہ منافق جو آپ کی ریاست ، دین اور وطن کے لیے خطرہ بن جائے پھر اس کا سر قلم کر دینا چاہیے ۔چیئرمین پاکستان علما کونسل نے کہاکہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ ناروا سلوک شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ ڈائیلاگ کے عمل کو چھوڑ کر انتہا پسندانہ اپروچ کے ساتھ پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں
حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے منفی رویوں کی اجازت نہیں دیتا،عالمی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مختلف مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے معاشروں میں برداشت، محبت، امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کیلئے ایک ہونا ہوگا۔انہوں نے فلسطین کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اہل فلسطین ہم سے دور ضرور ہیں لیکن ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں،پا کستان دوسرا ملک تھا
جس نے فلسطین کے لیے امدادی سلسلہ شروع کیا اور یہاں سے امدادی قافلے اور سامان مصر بھیجنا شروع کیا اور اس امداد کو آرمی چیف اور وزیراعظم کے حکم پر دگنا کر دیا گیا ہے۔وزیرا عظم انوارلحق کاکڑ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے بعد دوسرے سربراہ ہیں جنہوں نے فلسطینی صدر کو ٹیلی فون کر کے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں نہ ہم تعلق رکھنا چاہتے ہیں،ہم ایک آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=414110