واشنگٹن۔6اکتوبر (اے پی پی):عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ دنیا 2030 تک انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرسکے۔ عالمی بینک نے "غربت اور مشترکہ خوشحالی” کے عنوان سے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں عالمی سطح پر انتہائی غربت کے خاتمے کی کوششوں میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کو ایک تاریخی موڑ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس وبا نے غربت کے خاتمے کے لیے دہائیوں سے کی جانے والی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
عالمی بینک کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں7کروڑ 10لاکھ سے زیادہ افراد یومیہ 2.15 ڈالر یا اس سے کم (جو انتہائی غربت کا نیاعالمی معیار ہے) پر زندگی گزار رہے تھے جن کی تعداد اب71کروڑ 90لاکھ ہو گئی ہےجو عالمی آبادی کا تقریباً 9.3 فیصد ہے اور یہ تعداد گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی ایک سال میں انتہائی غربت کی سطح تک پہنچنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
عالمی بینک کے تجزیہ کاروں نے کہا کہ صورتحال اب اور بھی تاریک ہوگئی ہے کیونکہ یوکرین کشیدگی کے ساتھ ساتھ ، افراط زر اور خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب مستقبل میں پیش رفت میں مزید رکاوٹیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے کہا کہ اس رپورٹ میں ترقی کو فروغ دینے والی بڑی پالیسی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق 2030 میں دنیا کی 7 فیصد آبادی انتہائی غربت میں زندگی گذارے گی۔
انہوں نے کہا کہ انتہائی غربت کو کم کرنے میں ہونے والی پیش رفت بنیادی طور پر کمزور عالمی اقتصادی ترقی کے ساتھ رک گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ افراط زر، کرنسی کی قدروں میں کمی اور ایک دوسرے کو وسیع تر متاثر کرنے والے بحران” نے غربت کو مزید ہوا دی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی نمو میں بڑے پیمانے پر اضافہ نہ ہونے کی صورت میں 2030 میں دنیا کے تقریباً 574 ملین افراد، جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً 7 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ حالات کی خرابی سے بچنے کے لیے ممالک کو مزید تعاون میں شامل کرنے، وسیع سبسڈی کو ختم کرنے، قلیل مدتی فوائد کی بجائے طویل مدتی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کو عالمی غربت میں کمی کے لیے دہائیوں سے جاری کوششوں کے لیے "سب سے بڑا دھچکا” قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں بتایا گیا کہ 5 سالوں میں ترقی کی رفتار کافی سست ہوئی ہے، غریب ممالک میں آمدنی کے نقصانات امیر ملکوں کی نسبت دو گنا زیادہ رہے جس سے عالمی مالیاتی عدم مساوات میں مزید اضافہ ہوا۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=331143