اسلام آباد۔29اکتوبر (اے پی پی):سارک چیمبر آف کامرس کے سابق صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ دو ارب آبادی کا خطہ جنوبی ایشیا مشترکہ عظیم تاریخ اور متنوع ثقافت کے باوجود یورپی یونین اور آسیان کی طرح ابھرنے اور آپس کی قربت کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اتوار کو ”جنوبی ایشیا کس طرح فروغ پذیر خطہ بن کر ابھر سکتا ہے“ کے موضوع پر سیمینار کے افتتاحی سیشن کی زوم کے ذریعے صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیا کی قیادت کو ایک ویژن اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چھوٹے ممالک کو بہت کچھ فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر زراعت میں ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال کے فروغ کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ورلڈ کپ کے میچوں میں پاکستانی فٹ بال استعمال ہوسکتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں کیوں نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اس خطے کے ممالک کے درمیان تجارت سے غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے اس کیلئے بداعتمادی کو ختم کرتے ہوئے کاروباری آسانیوں، ٹرانسپورٹ اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک اور برتری حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے ذریعے تمام جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیائی ممالک کو تجارتی و اقتصادی رابطہ فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے کچھ حصوں میں پاکستان اور افغانستان کو باہر رکھ کر تعلقات استوار کرنے کا تصور ابھر رہا ہے جسے خطے کے وسیع تر مفاد میں روکا جانا چاہیے۔
افتخار علی ملک نے کہا کہ عدم مداخلت اور غیر تسلط پسندی کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہو کر یہ خطہ تیز رفتار ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ پائیدار ترقی اور مشترکہ خوشحالی کے لیے ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ خطہ بے پناہ صلاحیتوں اور وسائل سے مالا مال ہے۔ تاہم اس صلاحیت کے مکمل ادراک، ہموار تجارت، سرمایہ کاری اور لوگوں کے درمیان روابط میں بہت سے رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان چیلنجوں پر قابو پانے اور تعاون کے ثمرات سے بھر پور استفادہ کیلئے جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین تعاون اور علاقائی روابط کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔