میلبورن۔26اگست (اے پی پی):اسرائیل کی طرف سے غزہ پر قبضے کے لئے ایک لاکھ 30 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کے فیصلے نے دہری شہریت کے حامل اسرائیلیوں اور ان کی دوسری شہریت والے ممالک کے لئے قانونی مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ آسٹریلوی ویب سائٹ دی کنورسیشن کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر قبضے کے لیے اسرائیل کے فوجی آپریشن میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار ریزرو فوجی حصہ لیں گے اور توقع ہے کہ غزہ پر قبضے کی لڑائی 2026 میں بھی جاری رہے گی۔ان ایک لاکھ 30 ہزار ریزرو فوجیوں میں سے 40 ہزار سے 50 ہزار فوجیوں پر مشتمل پہلا دستہ 2 ستمبر کو ڈیوٹی پر حاضر ہو جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریزرو فوجیوں کو ڈیوٹی پر بلانے کے اسرائیلی منصوبے ان ممالک کے لیے اہم قانونی مسائل پیدا کر رہے ہیں جو د ہری اسرائیلی شہریت کے حامل افراد کواسرائیلی مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دیتے ہیں چاہے وہ رضاکارانہ اندراج کے پروگراموں کے ذریعے، یا لازمی ریزرو ڈیوٹی کے ذریعے۔اسرائیلی قانون کے تحت، ہر شہری یا مستقل رہائشی کو اس کی عمر، ازدواجی حیثیت اور جنس کی بنیاد پر 18 سے 36 ماہ اسرائیل کی مسلح افواج میں سروس کرنا ہوتی ہے اس کے بعد اسے دس سال ریزرو ڈیوٹی پر رہنا ہوتا ہے اور غزہ میں جنگ کے آغاز سے اسرائیل نے لازمی سروس کو تین سال تک بڑھا دیا ہے جس سے اسرائیلی مسلح افواج کے فعال فوجیوں کی افرادی قوت بڑھ کر 169,500 اور ریزرو فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 465,000 ہو گئی ہے۔ بہت سے ریزرو فوجی اس وقت اسرائیل میں مقیم ہیں تاہم ان کی خاصی تعداد بیرون ملک بھی رہتی ہے۔
جولائی 2024 میں، بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے)نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے قانونی نتائج کے بارے میں ایک مشاورتی رائے دی تھی۔ عدالت نے مشورہ دیا کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اسرائیل کو قبضے کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرنے سے گریز کرنے کے پابند ہیں۔ علاوہ ازیں آئی سی جے نے پہلے ہی ایک ابتدائی حکم جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں کو غزہ میں نسل کشی سے تحفظ کا معقول حق حاصل ہے۔بین الاقوامی عدالت انصاف کی جولائی 2024 کی رائے کے جواب میں، اقوام متحدہ کے 40 آزاد ماہرین نے مشورہ دیا کہ ریاستوں کو اپنی د ہری اسرائیلی شہریت کو اسرائیل کی مسلح افواج میں خدمات انجام دینے سے روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ وہ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے سے بچ سکیں۔
اور رواں سال کے آغاز میں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے قائم کردہ ایک آزاد بین الاقوامی کمیشن نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے ملکی قوانین کے تحت یا عالمی دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے غزہ میں جرائم کے ارتکاب کے الزام کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ اس صورتحال میں ان ممالک کی قانونی ذمہ داریوں پر بحث تیز ہو گئی ہے جو ان کے د ہری شہریت کے حامل اسرائیلی شہریوں کواسرائیل کی مسلح افواج میں شامل ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان ممالک میں امریکا ، فرانس، کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں۔ امر یکا ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، برازیل، ارجنٹائن، روس اور جنوبی افریقہ جنیوا کنونشن، تشدد کے خلاف کنونشن، اور نسل کشی کنونشن کے فریق ہیں۔ یہ معاہدے اراکین پر نہ صرف خلاف ورزیوں پر سزا دینے بلکہ ان کی روک تھام کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔اس کی وجہ سے کینیڈا اور دیگر ممالک میں دہری شہریت کے حامی اسرائیلی شہریوں جو اسرائیلی مسلح افواج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں،کے خلاف کارروائی کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان ممالک کی حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھایں گی اور مؤثر طریقے سے اپنے شہریوں کو غزہ میں لڑائی کے بارے میں متنبہ کریں گی، اور جہاں ضروری ہو، تحقیقات کریں گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گی۔