کوئٹہ۔ 25 ستمبر (اے پی پی):تربت سے گرفتار خودکش بمبار خاتون عدیلہ بلوچ نےکہا ہے کہ انہیں بہکایا گیا تھا، دہشت گرد خواتین کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، بازیابی پرمیں حکومت بلوچستان کی شکر گزار ہوں۔بدھ کو کوئٹہ میں اپنے والدین، ترجمان بلوچستان شاہد رند، رکن صوبائی اسمبلی فرح عظیم شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوے عدیلہ بلوچ نے کہا کہ بدقسمتی سے لوگوں نے بہکایا، پہاڑوں میں جا کر غلطی کا احساس ہوا اور بڑے گناہ سے بچ گئی ۔عدیلہ بلوچ نے کہا کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم تربت سے حاصل کی، نرسنگ کا کورس کوئٹہ سے کیا ہے، میں لوگوں کی جان بچانے کے شعبے سے منسلک تھی، مجھے کچھ لوگوں نے ورغلایا کہ میں خودکش حملے کروں۔
عدیلہ بلوچ نے کہا کہ میں ایک کوالیفائیڈ نرس ہوں اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک پروجیکٹ چلا رہی ہوں ۔ میرا کام لوگوں کی مدد کرنا اور زندگیاں بچانا ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں ایسے عناصر کے ساتھ رہی جنہوں نے مجھے صحیح راستے سے بھٹکایا۔عدیلہ بلوچ نے کہا کہ مجھے ایسے بہکایا گیا کہ میں خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی اور یہ بھی نہیں سوچا کہ میرے خودکش حملے کرنے سے کتنے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جانیں جا سکتی ہیں۔عدیلہ بلوچ نے کہا کہ میرا بلوچ نوجوانوں کے لیے پیغام ہے کہ جو غلطی میں نے کی ہے آپ نہ کریں۔ اس میں صرف ہمارا نقصان ہے۔
ایسے کاموں سے کوئی آزادی نہیں ملتی ۔ جن لوگوں سے میں ملی ہوں، اگر ایسے لوگ آپ کو ملیں تو اپنے والدین کو ضرور بتائیں۔ یہ بربادی کا راستہ ہے، اپنے آپ کو خود کش حملے میں استعمال کرکے مارنا حرام راستہ ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ بلوچ نوجوان غلطی کریں جو میں نے کی۔عدیلہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی وجہ سے میں یہ گناہ کرنے سے بچ گئی۔بازیابی پر میں حکومت بلوچستان کی شکر گزار ہوں۔اس موقع پر عدیلہ بلوچ کی والدہ نے کہا کہ دہشت گرد ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، خواتین کو دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اللہ جانتا ہے کہ ہم نے کن مشکل حالات میں وقت گزارا ہے، بیٹی کے لاپتہ ہونے کے بعد ایک ایک دن کرب اور مصیبت میں گزارا۔
عدیلہ بلوچ کے والد نے کہا کہ میں بینک ملازم ہوں، کراچی میں نوکری کرتا ہوں، اپنی تنخواہ سے گھر کا خرچ اور بچوں کو تعلیم دلا رہا ہوں۔انہوں نے بتایا کہ میری بیٹی لاپتہ ہوئی تو میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر اور اہلخانہ پر کیا گزری، جو پہاڑوں میں جاتے ہیں ان کا واپس آنا مشکل ہوتا ہے، پہاڑوں پر لے جانے والے آزادی کے نام پر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا کہ میری بیٹی لاپتہ ہے اور درخواست کی کہ میری بیٹی کو بازیاب کرائیں، حکومت پاکستان اور بلوچستان کی وجہ سے میری بیٹی بازیاب ہوئی، ہم یہاں پر اپنی مرضی سے آئے ہیں، سوشل میڈیا پر جو دیکھتے ہیں وہ پروپیگنڈا ہے۔
اس موقع پر رکن بلوچستان اسمبلی فرح عظیم شاہ نے کہا کہ بلوچ اپنی عزت پر جان دینے والی قوم ہیں، حیرانی ہوئی کہ ان کے ہاتھوں ہماری بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں۔ریاست نے ماں کا ثبوت دیا ہے،جو لوگ پہاڑوں پر لڑ رہے ہیں وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں،بچیوں کی برین واشنگ قبول نہیں کریں گے۔ ہم پاکستان کے استحکام کے لیے کوسمجھوتہ نہیں کریں گے،ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ عدیلہ تربت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں نرسنگ کے شعبے سے کافی عرصے سے مسنگ تھی۔
آج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بڑی کامیابی ملی ہیں۔واضح رہے کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کواس وقت ایک بڑی کامیابی ملی جب انہوں نے ضلع کیچ کے شہر تربت سے خاتون خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا جس کی شناخت عدیلہ بلوچ کے نام سے ہوئی ہے۔