فیصل آباد ۔ 22 اگست (اے پی پی):وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے منگل کو فیصل آباد کا دورہ اورسرکٹ ہاؤس میں وفاقی سرکاری اداروں کے سربراہان کےساتھ اجلاس منعقد کیاجس میں جی ایم سوئی گیس عبدالرشید، ڈائریکٹر ایف آئی اے رائے اعجاز، ڈسٹرکٹ آفیسر آئی بی طاہر حمید، ریجنل ہیڈ ای او بی آئی نثار احمد، ریجنل ڈائریکٹر بی آئی ایس پی مقدس تنویر چیمہ، ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ پوسٹل سروسزجنرل پوسٹ آفس قرات العین، ایڈیشنل کمشنر ہیڈ کوارٹر ایف بی آر عمر یونس، زونل چیف زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ لعل حسین، جوائنٹ،ریجنل ڈائریکٹر سی ڈی این ایس مسعود احمد، چیف منیجر سٹیٹ بینک وقاص کاشف، زونل ہیڈ سٹیٹ لائف انشورنس چوہدری یوسف مختیار، جی ایم کمرشل فیسکو عمر حیات، ڈائریکٹر پاسپورٹس اینڈ امیگریشن فیض الحسن، سٹیشن سپرنٹنڈنٹ پاکستان ریلویز یونس بھٹی،لیگل ہیڈ یوٹیلٹی سٹورز علی احمد، ایس ایس پی موٹر وے پولیس جاوید چدھڑ، زونل ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی محمد فرحان خالد، ڈپٹی ڈائریکٹر نادرا عمار احمد، انچارج اینٹی نارکاٹکس فورس سلمان ساندل، ڈائریکٹر ایئر پورٹ سکیورٹی فورس شفیق الرحمان، ڈپٹی سینئر اے ٹی سی اوسول ایوی ایشن اتھارٹی عرفان احمد،
ایسوسی ایٹ ایڈوائزر وفاقی محتسب سید غضنفر مہدی، ایڈوائزر حسین جیلانی اور اسسٹنٹ رجسٹرار وفاقی محتسب یاسر شبیر ملک سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے۔اس موقع پر وفاقی محتسب نے بتایا کہ سال 2023میں وفاقی سرکاری اداروں کے خلاف شکایات کی تعداد ایک لاکھ90ہزار سے بڑھ جانے کا امکان ہے تاہم ہمارے افسر دور دراز علاقوں میں جا کر عوام کو مفت ریلیف فراہم کررہے ہیں اور تمام متعلقہ اداروں پرواضح کردیا گیا ہے کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عملدرآمد میں کوئی کوتاہی اور تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم سب پبلک سرونٹ ہیں اس لئے غریب و عام آدمی کے جائز مسائل حل کرنا ہمارا فرض ہے جس کےلئے تما م محکموں کو مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں شکایات کی تعداد ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے جو ادارے پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔انہوں نے بتایاکہ سال 2021میں شکایات کی تعداد ایک لاکھ10 ہزار تھی جو سال 2022میں بڑھ کر ایک لاکھ64 ہزار ہو گئی جبکہ اس سال اندازہ ہے کہ شکایات کی تعداد ایک لاکھ 90 ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلوں پر عملدرآمد کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔انہوں نے سرکاری افسران کو ہدایت کی کہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلئے ایسے افسران کو سماعت کے لئے بھیجا جائے جو فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں۔ انہوں نے وفاقی اداروں کے صوبائی سربراہان سے کہا کہ آپ اپنے اداروں میں شکایات کنندگان کی شکایات کے ازالے کا مؤثر نظام وضع کریں تاکہ زیادہ تر شکایات اداروں کے اندر ہی حل ہو جائیں۔
وفاقی محتسب نے کہاکہ ہم نے انفارمل ریزولیوشن آف ڈسپیوٹ کے نام سے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کے تحت ثالثی اور مصالحتی انداز میں شکایات کو نمٹایا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں وفاقی محتسب کے18 ریجنل آفس ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تمام اداروں کے سربراہان سے ملاقات کی جائے۔انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان میں وفاقی محتسب کا رول انتہائی اہم ہے بلکہ ایسے ادارے کاوجودیورپ میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ40 سال سے یہ ادارہ کام کر رہا ہے جس میں کوئی کرپشن نہیں کیونکہ ہم40 سال سے ایک آئین کے تحت کام کررہے اور60 ہزار شکایات سالانہ سنتے ہیں،85فیصد شکایات کافیصلہ میرٹ پرکیاجاتاہے۔
وفاقی محتسب نے کہا کہ دور دراز علاقوں کے لوگوں کو بھی اس ادارے کی اہمیت بارے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ہمارے ایڈوائزر ڈسٹرکٹ اور تحصیل لیول پر جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک آسان راستہ بھی ہے کہ ایک سادہ درخواست کے ذریعے عام سے عام شہری بھی اپنی شکایت اپنے شہر کے محتسب آفس میں دے سکتا ہے۔
اعجاز احمد قریشی نے کہا کہ کھلی کچہری کا بھی ایک نظام ہے نیز میڈیا کا کام بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ محتسب کی جانب سے کئے گئے فیصلوں بارے لوگوں کو بتایا جائے تاکہ شہریوں کو اس ادارے کے بارے میں پتہ چل سکے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر14 محتسب ہیں لیکن وفاقی محتسب کا رول ان سے زیادہ ہے۔وفاقی محتسب نے کہا کہ آپ لوگوں کے تعاون سے اس میں اور زیادہ امپروومنٹ لائی جاسکتی ہے لہٰذااگرآپ اپنے اداروں میں فوکل پرسن لگا دیں تو کام اور بھی آسان ہو سکتا ہے کیونکہ فیصلوں پر عملدرآمد کےلئے یہ فوکل پرسن ہمیں آگاہ رکھتا ہے۔انہوں نے ایک بار پھر امید ظاہر کی کہ تمام محکمے وفاقی محتسب کے فیصلوں پر فوری عملدرآمد یقینی بنائیں گے