رواں مالی سال کے دوران جولائی سے اپریل 2020ءتک جاری کھاتوں کے خسارے میں 70.8 فیصد کمی ہوئی ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، وفاقی حکومت نے اقتصادی سروے 2019-20ءجاری کر دیا

109

اسلام آباد ۔ 11 جون (اے پی پی) وفاقی حکومت نے اقتصادی سروے 2019-20ءجاری کر دیا ہے جس کے تحت رواں مالی سال کے دوران جولائی سے اپریل 2020ءتک جاری کھاتوں کے خسارے میں 70.8 فیصد کمی ہوئی ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2019ءسے مارچ 2020ءمالیاتی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا 4 فیصد رہا، مالی سال 2020ءکے لئے جی ڈی پی کی عارضی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.38 رہا ہے۔ زرعی شعبہ کی شرح نمو میں 2.67 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گندم کی پیداوار 2 کروڑ 49 لاکھ 46 ہزار ٹن ریکارڈ کی گئی۔ صنعتی شعبہ کی نمو منفی 2.64 فیصد اور خدمات کے شعبہ کی منفی 5.9 فیصد رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر اشیاءکی تیاری کی شرح نمو 5.4 فیصد، مالیاتی خسارہ 9.1 فیصد رہا ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں رواں مالی سال کے دوران 14.6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2019-20ءکے پہلے 9 ماہ کے دوران کل محاصل میں 30.9 فیصد کی نمو رہی۔ جولائی تا اپریل 2020ءکے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 10.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے کے لئے معیشت کے لئے نمایاں چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ مالی حسابات پر شدید دباﺅ کا اندیشہ ہے۔ جولائی 2019ءسے مئی 2020ءکے دوران عمومی افراط زر کی شرح 10.9 فیصد رہی۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی سے فروری تک برآمدات میں 3.6 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور تجارتی خسارے میں 29.5 فیصد کی کمی ہوئی۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اقتصادی ٹیم کے ہمراہ جمعرات کو یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی سروے جاری کیا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ کورونا وائرس پھیلنے سے معیشت کے لئے نمایاں چیلنجز سامنے آئے ہیں، خاص طور پر مالی حسابات پر شدید دباﺅ آنے کا اندیشہ ہے، کورونا وائرس کے اثرات سے معیشت اور لوگوں کو بچانے کا فیصلہ کیا گیا، 1200 ارب کا ایک پیکیج دیا گیا، مرکزی بینک کے ذریعے بھی مراعات دیں۔ اس پیکیج میں ایک کروڑ ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو 12 ہزار روپے دیئے گئے,ابھی تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دےے جاچکے ہیں، یہ دنیا بھر میں نمایاں عمل ہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے اپنے شہریوں کی بلا امتیاز مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے گندم کی خریداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے تین ماہ کی بجلی حکومت دے گی۔ بل موخر نہیں کئے گئے، بل حکومت ادا کرے گی، اس سے کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ زراعت کے لئے پچاس ارب کی خصوصی سکیم لائی گئی، یوٹیلٹی اسٹورز کے لئے ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچنے کی ہدایت کی اور اس ضمن میں پچاس ارب روپے مختص کئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم کھانے پینے کی بنیادی اشیاءکی قیمتوں میں کمی کیلئے خرچ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں 28 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان کے تحت کمزور طبقہ کو گھر بنانے میں سہولت کے لئے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اس میں ٹیکس کی چھوٹ بھی شامل ہے۔ تعمیراتی شعبے کے لئے مکمل پیکیج دیا گیا، اس شعبے کے لئے ٹیکسوں کو کم کیا گیا۔ کم آمدنی والے لوگوں کیلئے کم ٹیکس میں بھی 90 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کو اقتصادی بحران ورثے میں ملا، برآمدات میں جمود تھا، زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9ارب ڈالر رہ گئے تھے، معیشت چلانا مشکل ہوگیا تھا، قرضے بڑھ کر 25000 ارب تک پہنچ گئے تھے، کل قرضے 30000 ارب تک پہنچ گئے تھے، ہم نے برآمدی شعبے کو مراعات دی ہیں، 20 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم کر کے 3 ارب ڈالر پر لے آئے ہیں۔ 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کئے ہیں اور سخت اقدامات سے حکومتی اخراجات کو کم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال مرکزی بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ لوگوں کی فلاح کیلئے وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے ٹیکسوں کی کارکردگی میں بہتری لائے ہیں، ٹیکس وصولی میں 17 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اگر اسی طرح معاملات چلتے تو 27 فیصد ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوتا۔ ہم نے تجارتی تعلقات مضبوط کئے، برآمدکنندگان کو سہولیات دی ہیں، وزیراعظم کے وژن کے مطابق کمزور طبقے پر توجہ دی ہے، کم بجٹ کے باوجود احساس پروگرام کا بجٹ دو گنا کیا گیا۔ اس کے فنڈز کو 90 ارب روپے سے بڑھا کر 192 ارب روپے کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے لئے 152 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ بجٹ میں نان ٹیکس آمدنی 1100 ارب روپے کی بجائے 1600 ارب روپے کی سطح پر پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی طلب کم ہونے سے برآمدات میں کمی آئی، وبا سے ملکی جی ڈی پی کو تین ہزار ارب کا نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تین سے ساڑھے تین فیصد قومی آمدنی میں نقصان ہوا، برآمدات متاثر ہوئیں، ایف بی آر ٹیکس وصولی 4700 ارب روپے تک پہنچنے کی بجائے 3900 ارب روپے تک پہنچے گی۔ 900 ارب روپے کا ٹیکس وصولی میں نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مزید بوجھ عوام پر نہیں ڈالنا چاہتے، مورگیج ادائیگی میں حکومت نے مدد کے لئے 30 ارب روپے رکھے۔ کم آمدنی والے لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر کیلئے لینڈ بنک بنایا جائے گا۔ جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد، صنعت منفی 2.64 فیصد، زراعت 2.64 فیصد، خدمات کا شعبہ منفی 3.4 فیصد، ٹرانسپورٹ منفی 7.1 فیصد، مینوفیکچرنگ منفی 22.9 فیصد رہی۔ مالی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد رہا، گزشتہ سال 5.1 فیصد تھا، کوشش ہے کہ اگلے بجٹ میں لوگوں کو مزید مراعات دیں، سماجی تحفظ کو مضبوط کریں اور نئے ٹیکس نہ لگائیں، لوگوں کو اقتصادی مراعات دیں، مئی کے مہینے میں برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس میں 17 فیصد اضافہ ماضی کے برعکس ٹھیک تھا۔ چیئرپرسن ایف بی آر نے کہا کہ محصولات میں 17 فیصد اضافہ ہوا، یہ گزشتہ دس سال کی بلند ترین شرح ہے۔ اس میں انکم ٹیکس میں 27 فیصد اضافہ ہوا، سیلز ٹیکس میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔ وفاقی وزیر اقتصادی امورخسرو بختیار نے کہا کہ جاری خسارہ 3.3 فیصد ہے، جی 20 ممالک سے قرضوں میں ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی ریلیف ملی، آئی ایم ایف نے 1.4 ارب ڈالر دیئے، ایشیائی ترقیاتی بینک نے 50 کروڑ ڈالر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ 9.7 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ورثہ میں ملے جو حکومتی اقدامات سے 18 ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے زرعی ہنگامی بنیادوں پر 300 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اس سے زرعی پیداوار اور پانی کی ضرورت پورا کی جائیں گی، پوری دنیا، آئی ایم ایف، اے ڈی بی اس کی معترف ہیں۔