اسلام آباد۔26اگست (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ روا ں سال بارشوں کی شدت کے اثرات زیادہ ہیں۔ وزیراعظم نے آئندہ سال کےلیے پیشگی انتظامات کی ہدایت کی ہے، دریائوں میں طغیانی اور سیلابی صورتحال کا سامنا ہے،ستمبر میں بارش کا ایک اور سلسلہ متوقع ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ اور چیئرمین این ڈی ایم اے کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ رواں سال مون سون بارشوں کے سپیل زیادہ ہوئے ہیں اور پچھلے سال کے مقابلے میں شدت بھی بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم مون سون کے سیکنڈ لاسٹ سپیل سے گزر رہے ہیں اس کے بعد ستمبر کے پہلے ہفتے یا ستمبر کے پہلے 10 دن میں غالباً ایک آخری سپیل مون سون کا متوقع ہے جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ تو نہیں ہو سکتا لیکن اللہ نے چاہا تو پوری کوشش کریں گے کہ کم سے کم نقصان ہو۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے حکم دیا ہے کہ تمام شہروں اور علاقوں میں آئندہ سال کی منصوبہ بندی اس مون سون کے ختم ہونے کے ساتھ ہی یا اس سے پہلے شروع ہو جانی چاہیے، اگلے سال کی تیاری کے لیے ہمارے جو پہاڑی علاقوں میں تباہی آتی ہے ان کی تحفظ کی اقدامات اٹھانے ہیں اور ہم نے بند بنانے ہیں، تعمیری سلسلے فوری طور پہ شروع ہو جانے چاہیے. وفاقی وزیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان جو سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں وزیراعظم روز اس حوالے سے جائزہ لے رہے ہیں اور روز میٹنگ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ اس وقت ہماری جو زیادہ دریاؤں میں طغیانی ہے وہ ہمارے مشرقی دریا دریائے راوی ،دریائے ستلج اور دریائے چناب اور کچھ علاقے جو اس سے متاثر ہو رہے ہیں وہ سیالکوٹ نارووال قصور اور لاہور کے اندر بھی کافی بارش ہو رہی ہے جس سے طغیانی زیادہ ہے لیکن وزیراعظم نے ہر علاقے کے چیف سیکرٹریز سے گفتگو کی ہے اور اس حوالے سے ہم صرف جائزہ نہیں لے رہے بلکہ ان کی تیاری کا پورا جو نظام ہے اسے سمجھ رہے ہیں.
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ہمارا فوکس ہے وہ صرف جائزہ لینے پر نہیں ہے بلکہ وہ تمام معاملات 24 گھنٹے چیئرمین این ڈی ایم اے اور دیگر وزراء کی نگرانی میں متاثرہ علاقوں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ کوئی ایسی جگہ نہ رہ جائے جہاں پر کوئی بڑے نقصان کا اندیشہ ہو اور وہاں پر حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی وہ نظر نہ آئے۔انہوں نے کہا کہ ہر وزیر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کوئی شخص یہ بات نہیں کرے گا کہ یہ کام صوبے کا ہے یا تحصیل کا یا ضلع کا ہے یہ پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے ہم حکومت پاکستان ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم تحصیل سے لے کر ضلع یا جو صوبے ہیں یا ہمارے جتنے بھی علاقہ جات ہیں ہر جگہ پر ان سے کندھے کے ساتھ کندھا لگائے کھڑے ہیں، ہماری پاک افواج بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہم نے تمام نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو بھی موبلائز کر دیا ہے، ہمارے ڈیمز کی بھی جو مشینری تھی وہ وزارت پانی نے تمام موبلائز کر دیے ہیں تو اس وقت جس جگہ پہ ہمیں نقصان کا اندیشہ ہو رہا ہے ہم وہاں پر پہنچ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ روز میں نے کراچی کا دورہ کیا اور وہ تمام نالے جن میں طغیانی آئی تھی وہ مجھے دکھائے گئے جہاں پر پلاسٹک کی وجہ سے رکاوٹ آتی ہے اور پورے شہر میں فلڈ آتا ہے. اس پلاسٹک کو ریمو کرنے کا طریقہ کار دکھایا پمپنگ سٹیشنز پہ لے کر گئے اور وہاں پر جو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہے وہ دکھایا۔اس کے بعد میری ٹائم کے وزیر سے گفتگو کی. انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام وفاقی ادارے اور وزارتیں مل کر کراچی کے مسائل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر بجلی اور وزیر مواصلات دونوں فیلڈ کے اندر موجود رہے ہیں تمام ہائی ویز ریسٹور کر دی گئی ہیں، چھوٹی چھوٹی سڑکوں کو بھی صاف کیا جا رہا ہے اور 190 میں سے تقریبا 165 کے قریب تمام جو بجلی کے فیڈرز تھے ان کو ریسٹور کر دیا گیا ہے، دو چار جگہوں پہ کچھ ایسے فلڈنگ ہے جس کی وجہ سے ابھی وہاں پہنچ نہیں پا رہے وہاں پر بحالی کا کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے آج یہ بھی ہدایت کی ہےکہ جہاں پر پینے کے پانی کا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو تمام وفاقی ادارے صوبے میں جائیں اور ان کے ساتھ مل کے کام کریں، اللہ تعالی کی طرف سے آئی ہوئی آفت ہے، آفت کے سامنے تو انسان بے بس ہوتا ہے لیکن ریاست اور ملک کے اوپر جو ذمہ داری ہے ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےنیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے کہا کہ دریائے ستلج کے کنارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے تقریباً 190,000 لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، کیونکہ پانی کی بڑھتی ہوئی سطح سے لوگوں کی حفاظت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر انخلاء پنجاب پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے ) اور ریسکیو 1122 کے ساتھ مل کر کیا گیا، جنہوں نے ہائی فلڈ الرٹس کے درمیان رہائشیوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کیا۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی موجودہ آپریشنل توجہ دریائے چناب، راوی اور ستلج پر مرکوز ہے جو کہ مون سون سیزن کے آٹھویں اسپیل کی وجہ سے درمیانے درجے سے اونچے درجے کے سیلاب کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے سربراہ نے خبردار کیا کہ اگلے 48 سے 72 گھنٹوں کے دوران شدید بارشوں کی توقع ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جو عام طور پر خشک ہیں اور پہلے سیلاب کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ سیالکوٹ، نارووال، قصور اور ملحقہ اضلاع میں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے شہری سیلاب اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ محکمے ہائی الرٹ پر ہیں اور عوام پر زور دیا کہ وہ چوکس رہیں، نشیبی علاقوں سے گریز کریں اور ٹیلی ویژن، ریڈیو اور موبائل الرٹس کے ذریعے جاری کردہ سرکاری ایڈوائزری پر عمل کریں،جاری موسلادھار بارشوں کی وجہ سے درمیانے درجے سے اونچے درجے کے سیلاب کے خطرے کے پیش نظر حساس علاقوں کی تمام تحصیلوں کو الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ انخلاء کی کارروائیاں منگل کو شروع ہوئیں، مقامی انتظامیہ نے زیادہ خطرے والے علاقوں سے محفوظ مقامات پر رہائشیوں کو منتقل کرنے کے لیے وسائل کو متحرک کیا۔چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ صوبائی اور ضلعی حکام کی مدد کے لیے تمام وفاقی وسائل اور بیک اپ سپورٹ کو تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلے دو سے تین دنوں میں مون سون کا موجودہ دور ختم ہونے کے بعد بے گھر رہائشی اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے،فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا اعتراف کرتے ہوئےاین ڈی ایم اے کے چیئرمین نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ سیزن کے اختتام پر انفراسٹرکچر کا جامع آڈٹ کیا جائے۔ خیبرپختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کے کچھ حصوں میں اگلے دو دنوں میں مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے ضلعی رابطہ کاری کے طریقہ کار کے ذریعے قبل از وقت وارننگ کی بروقت فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ عوام قائم کردہ چینلز کے ذریعے جاری کی جانے والی سرکاری ایڈوائزری پر دھیان دیتے رہیں گے۔