اسلام آباد۔30دسمبر (اے پی پی):چئیرمین ایف بی آر ڈاکٹرمحمداشفاق نے کہاہے کہ عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیاء پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیاگیا ہے،کھانے پینے کی اشیاء، ڈیری مصنوعات اور کپڑے کو ٹیکس فری رکھا جا رہا ہے،آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے ٹیکس اورجنرل سیلزٹیکس کے یکساں اطلاق کامطالبہ کیاتھا تاہم ایف بی آر نے 343 ارب روپے کے ٹیکس استثنی کا انتظام کیا،ٹیکس چھوٹ کی واپسی سے بالواسطہ اورممکنہ طور متاثر ہونے والے طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے 33 ارب روپے کا وسیع ہدف پرمبنی سبسڈی پلان تجویز کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بات وفاقی کابینہ ضمنی مالیاتی بل 2021 پرخصوصی پریزینٹیشن میں کہی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی جانب سے جمعرات کویہاں جاری بیان کے مطابق ضمنی مالیاتی بل 2021 پر بحث اور منظوری کے لیے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر نے بل کی نمایاں خصوصیات کی وضاحت کے حوالہ سے خصوصی پریزینٹیشن دی جس میں انہوں نے جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کابینہ کو بتایا کہ آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے ٹیکس اورجنرل سیلزٹیکس کے یکساں اطلاق کامطالبہ کیاتھا تاہم ایف بی آر نے 343 ارب روپے کے ٹیکس استثنی کا انتظام کیا جبکہ پیداواری اور معاشرے کے معاشی طورپرغریب اورکمزورطبقات کیلئے ٹیکس کی چھوٹ کادفاع کیا۔
انہوں نے اجلاس کوبتایا کہ عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسے کھانے پینے کی اشیاء، ڈیری مصنوعات اور کپڑے کو مقامی مارکیٹ میں ٹیکس فری رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح چاول کی درآمد وفراہمی گندم، دیگر اناج کی مقامی سپلائی، پھل، سبزیاں، بڑاگوشت، مٹن، پولٹری، مچھلی، انڈے، گنے، چقندر، اور افغانستان سے درآمد شدہ سبزیوں اور پھلوں کو بھی ٹیکس فری کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے۔ دودھ اور چربی سے بھرے دودھ پر بھی کوئی ٹیکس عائد نہیں کیاگیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کابینہ کو بتایا کہ مختلف آئٹمز جو کہ کسی نہ کسی طرح ٹیکس اصلاحات پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں، کیلئے ہدف پرمبنی سبسڈی دی جائیگی۔ تمام قابل ٹیکس کاروباری ان پٹس کے لیے ان پٹ ایڈجسٹمنٹ دستیاب رہے گی اور خام مال اور کیپٹل گڈز بشمول فارماسیوٹیکل سیکٹر کی درآمد پر کاروبار اور صنعت کو سیلز ٹیکس کی فوری واپسی کو یقینی بنایا جائیگا۔فارماسیوٹیکل فرمز برآمد کنندگان کی طرح کو 72 گھنٹوں کے اندر ری فنڈ جاری کئے جائیں گے۔
فارما فرمز اب پیکیجنگ میٹریل، یوٹیلیٹیز وغیرہ پر ان پٹ ٹیکس کے طور پر ادا کیے گئے جی ایس ٹی پر ریفنڈ کا دعویٰ کر سکیں گی جو کہ وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے، اس اقدام سے ریٹیل مارکیٹ میں ادویات کی قیمتیں تقریباً 20 فیصد تک کم ہو جائیں گی۔ٹیکس چھوٹ کے خاتمہ کی وضاحت کرتے ہوئے چئیرمین ایف بی آر نے کابینہ کو بتایا کہ فارماسیوٹیکل کیلئے 160 ارب روپے،
پلانٹ اور مشینری 112 ارب روپے، اور دیگر اشیا کیلئے 71 ارب روپے کا ٹیکس چھوٹ ختم کردیا گیاہے۔ واضح کیا گیا کہ مشینری اور فارما کی مد میں 272 بلین کی جو ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے وہ قابل واپسی یا ایڈجسٹ ایبل ہے ۔دیگر اشیا پر صرف 71 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ خالص لاگو ٹیکس ہے اور اس میں لگژری اشیاء پر 31 ارب روپے اور کاروباری سامان پر 31 ارب روپے کا ٹیکس شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف دو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کا تعلق ان اشیا سے ہے جو عام آدمی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چھوٹ کی واپسی سے بالواسطہ اورممکنہ طور متاثر ہونے والے طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے 33 ارب روپے کا وسیع ہدف پرمبنی سبسڈی پلان تجویز کیا گیا ہے ۔
انہوں نے مزید واضح کیا کہ ٹیرف پالیسی بورڈ اور وزارت تجارت کی سفارش پر درآمدی اور مقامی طور پر تیار/اسمبل شدہ گاڑیوں پر فیڈرل ایکسایز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے۔ سیلولر سروسز پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ غیر ملکی ٹی وی سیریل/ ڈراموں اور غیر ملکی اداکاروں کے ساتھ اشتہارات پر ودہولڈنگ ٹیکس کی تجویز ہے۔اون منی کی حوصلہ شکنی کے لیے نئی خریدی گئی گاڑیوں کی منتقلی پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔
آر ای آئی ٹی کے لیے دستیاب چھوٹ کو آر ای آئی ٹی کے تحت خصوصی مقصد والی گاڑیوں کے سیٹ اپ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں فارماسیوٹیکل سیکٹر، پلانٹ اور مشینری سمیت مختلف امور زیر بحث آئے۔
کابینہ کے ارکان نے جی ایس ٹی کی چھوٹ واپس لینے سے افراط زر کے اثرات بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ نے ٹیکس چھوٹ کی واپسی کی حرکیات کی وضاحت کی اور کابینہ کو یقین دلایا کہ اس سے مہنگائی کا اثر کم سے کم ہوگا ، یوٹیلیٹیز اور پیکیجنگ میٹریل وغیرہ کے حساب سے ان پٹ کو ایڈجسٹ کرنے کی وجہ سے دواسازی کی مصنوعات کی قیمتیں نیچے آئیں گی۔ اسی طرح،
پلانٹ اور مشینری پر ادا کی جانے والی کسی بھی ان پٹ پر ایڈجسٹمنٹ/ریفنڈ دستیاب رہے گا۔ اجلاس میں سیلولر خدمات پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافے سے متعلق بھی سوال اٹھایا گیا۔ وزیر خزانہ نے وضاحت کی کہ یہ اضافہ موبائل فون کالز پر فیڈرل ایکسائز کے نقصان کی وجہ سے ہونے والے ریونیو نقصان کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھا۔