رکن قومی اسمبلی محمد فاروق ستار کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا چھٹا اجلاس

89
سینیٹ اجلاس کے دوران مختلف اہم امور پر بحث ہوئی

اسلام آباد۔3فروری (اے پی پی):قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا چھٹا اجلاس رکن قومی اسمبلی محمد فاروق ستار کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران کمیٹی کو پی آئی اے کی نجکاری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور چیئرمین نجکاری کمیشن کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لئے دوسری کوشش پوری طرح سے تیار ہے جس میں دوسری مرتبہ بولی میں شرکت کرنے والے بولی دہندگان اور دیگر پارٹیوں نے اس عمل میں حصہ لیا ہے۔

گزشتہ کوشش میں بولی دہندگان نے نئے طیاروں اور بیڑے کی توسیع کو شامل کرنے پر حکومت کی طرف سے عائد کردہ 18 فیصد جی ایس ٹی کو معاف کرنے کی سفارش کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس ٹیکس کو ختم کرنے سے نئے ہوائی جہازوں کے حصول میں آسانی ہو گی اور ہوا بازی کی صنعت کی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے واجبات کی رقم 45 ارب روپے بشمول فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو 26 ارب روپے ٹیکس کے واجبات، 10 ارب روپے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)اور باقی رقم پنشن واجبات پر مشتمل ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ کا معاملہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سامنے رکھا اور آئی ایم ایف نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری کی جاتی ہے تو نئے طیاروں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے 18 فیصد جی ایس ٹی کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ادارے کی دیگر مالی مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مالی بوجھ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لئے رکاوٹ نہ بن سکے۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ نان کور اثاثے پی آئی اے کی بولی کے عمل کا حصہ نہیں ہیں۔ حکومت ان اثاثوں کے لئے ایک الگ پالیسی تشکیل دے رہی ہے جس کے لئے ایک مشیر بھی تعینات کیا گیا ہے۔ مشیر نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) کو دو سے تین اختیارات کی تجویز پیش کی ہے۔

کابینہ کمیٹی ان میں سے ایک آپشن کو اپنائے گی اور نان کور اثاثوں سے متعلق پالیسی جاری کرے گی۔اجلاس کے دوران کمیٹی نے نجکاری کمیشن (ترمیمی) بل 2024 (سرکاری بل) پر تفصیل سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ کمیٹی نے شق 4، سیکشن 7 (4) پر اعتراض اٹھایا جس میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ آیا کوئی ایسی مثال موجود ہے جہاں وزیر اعظم کو کابینہ کے بجائے نجکاری کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

کمیٹی نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ اجلاس میں تفصیلات پیش کرے۔ بعد ازاں کمیٹی نے آئندہ اجلاس تک نجکاری کمیشن (ترمیمی) بل 2024 (گورنمنٹ بل) موخر کر دیا۔ کمیٹی نے ڈسکوز کی نجکاری پر مزید تبادلہ خیال بھی کیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں تین ڈسکوز بشمول آئیسکو، فیسکو، اور گیپکو کی نجکاری پر غور کیا جائے گا۔ اس عمل کے دو فرموں نے اپنی بولی پیش کی ہے جن میں سے نجکاری بورڈ نے فرم الواریز اینڈ مارسل مڈل ایسٹ لمیٹڈ کی سفارش کی۔

اس کے بعد حتمی بولی دینے والی کمپنی نے وزیر خزانہ اور وزیر قانون کو بریفنگ دی اور انہوں نے بولی دہندہ کے ساتھ اتفاق کیا اور بورڈ کو ہدایت کی کہ وہ بولی لگانے والے کے ساتھ معاہدے پر دستخط کریں۔ نجکاری کے عمل کی تکمیل سے قبل بعض مسائل کے حل کی ضرورت تھی۔ پاور ڈویژن اور نیپرا، ورلڈ بینک کے اشتراک سے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ بولی لگانے والوں کے لئے ٹھوس پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے بولی لگانے کے عمل سے قبل ہی مسائل ختم ہو جائیں۔اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی انور الحق چوہدری، عبد القادر خان، صبا صادق، ناظر احمد بھگیو، نعمان اسلام شیخ، ذوالفقار علی، خواجہ شیراز محمود، سحر کامران، محبوب شاہ اور ارشاد عبد اللہ ووہرا کے علاوہ وزارت کے اعلیٰ حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔