ریاستی پالیسیوں کی جانچ پڑتال ، عوامی نمائندوں کے اشتعال انگیز بیانیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت، متعصبانہ رویوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں،مخدوم قریشی

53

اسلام آباد۔16فروری (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ریاستی پالیسیوں کی جانچ پڑتال(securitization)، عوامی نمائندوں کے اشتعال انگیز بیانیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت، متعصبانہ رویوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق انہوں نے یہ بات بدھ کو پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ استنبول عمل کے آٹھویں اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔وزیر خارجہ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ریاستی پالیسیوں کی جانچ پڑتال، عوامی نمائندوں کے اشتعال انگیز بیانیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت، متعصبانہ رویوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے بنیادی عوامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص مسلمان اور اسلام اس عفریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے عصر حاضر کے ان مسائل سے بچائو اور تدارک کے لئے تین نکات اور ٹھوس کارروائی پر مبنی حکمت عملی پیش کی جس میں، اول) ریاست کے امتیازی قوانین، پالیسیز اور جاری اقدامات کا ازسرنوجائزہ اور نظر ثانی، دوم)بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے علاوہ نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لئے قانونی رکاوٹوں کی تشکیل شامل ہے۔

اس حکمت عملی کا تیسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے عالمی قانون کی تیاری کی تجویز دی جس کے ذریعے امتیازی ومتعصبانہ ایسے خیالات اور اظہار پرپابندی عائد کی جائے جس سے مذہبی عدم برداشت پھیلتی ہے اورنفرت انگیزی کے نتیجے میں تشدد کے اقدامات جنم لیتے ہیں۔

ترکی کے وزیرخارجہ، ’او۔آئی۔سی‘ کے سیکریٹری جنرل،اقوام متحدہ کے لئے برطانیہ کے وزیرمملکت ، امریکہ کے جمہوریت و انسانی حقوق کے لئے انڈر سیکریٹری، یورپی یونین کے انسانی حقوق کے لئے نمائندہ خصوصی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے صدر، انسانی حقوق کے لئے اقوام متحدہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر، اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے لئے اتحاد کے اعلی نمائندے کے علاوہ ’او۔آئی۔سی‘ کے سابق سیکریٹری جنرل پروفیسر اکمل الدین احسان اولو نے افتتاحی نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ریاستوں، بین الحکومتی تنظیموں، سول سوسائیٹی، مختلف مذاہب کے راہنماﺅں، مرکزی اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 200 کے قریب شرکاءنے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس کے پینل مذاکروں میں گزشتہ دس سال کے دوران ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا، عصر حاضر میں پائے جانے والے خدشات وتحفظات کا تجزیہ ہوگا اور ان درپیش مسائل سے نبردآزما ہونے اور ان کے تدارک کے لئے طریقے تلاش کئے جائیں گے۔

استنبول پراسیس کے آٹھویں اجلاس کی میزبانی سے وزیراعظم عمران خان کے وژن کی روشنی میں مکالمے کے فروغ اور مذہبی عقائد رکھنے والے افراد کے خلاف اشتعال انگیزی و تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے ٹھوس ریگولیٹری اقدامات کی منظوری کی حوصلہ افزائی کرنے کا پاکستان کا عزم نمایاں ہوتا ہے۔

پاکستان جینیوا میں ’او۔آئی۔سی‘ کے انسانی حقوق کے امور کے کوآرڈینیٹر کے طور پر سال 011 2میں منظور کردہ ’انسانی حقوق کونسل کی قرارداد 16/18‘ پر سیاسی اتفاق رائے بنانے کے لئے قائدانہ کردار ادا کررہا ہے جس میں مذہب یا عقیدے کی بناءپر فرد یا طبقات کے خلاف متعصبانہ رویوں اورتشدد کے تدارک کے لئے آٹھ نکاتی ایکشن پلان وضع کیاگیا ۔