واشنگٹن۔14جنوری (اے پی پی):امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس نے گرین لینڈ کی خریداری کے لئے ایک بل کے مسودہ پر کام شروع کر دیا ہے ۔تاس کے مطابق ’’میک گرین لینڈ گریٹ اگین ایکٹ ‘‘نامی اس بل کے زریعے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈنمارک سے گرین لینڈ کی خریداری کے لئے بات چیت شروع کرنے کا اختیار دیا جائے گا ۔
اب تک امریکی کانگریس کے 10ری پبلکن ارکان اس مجوزہ ایکٹ کی حمایت ظاہر کر چکے ہیں ۔دریں اثناء بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک ہفتے بعد اپنے دوسرے دور صدارت کا آغاز کرنے والے ہیں، نے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران 2019 میں21 لاکھ 66 ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے حامل آرکٹک میں ڈنمارک کے خودمختار علاقے اور دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اب انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے امریکا کی اقتصادی طاقت یا فوجی استعمال کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
انہوں نے ایک حالیہ پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے۔ٹرمپ کی جانب سے اس موضوع کو بار بار توجہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے اس معاملے کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل وجہ وہ معدنیات کا خزانہ ہے جو گرین لینڈ میں موجود ہے۔تاریخی اعتبار سے امریکی حکام اس خطے کو سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے توجہ دیتے آئے ہیں۔
روس سے قربت کی وجہ سے سرد جنگ کے دوران اسے یورپ اور شمالی امریکا کے سمندری تجارتی راستے کو محفوظ بنانے کے لیے اہم سمجھا گیا۔ امریکی فوج نے دہائیوں تک یہاں ایک اڈہ قائم رکھا جسے بیلسٹک میزائلوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔تاہم 2023 میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈنمارک اور گرین لینڈ نے تخمینہ پیش کیا کہ جزیرے پر 38 معدنیات بڑی مقدار میں موجود ہیں جن میں کاپر، گریفائیٹ، نیوبیئم، ٹائٹینیئم، روڈیم شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیسا کہ نیوڈیمیئم اور پریسیوڈائمیئم جو الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر اور ونڈ ٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں بھی پائی گئی ہیں۔مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم سائمن نے بتایا ہے کہ گرین لینڈ میں دنیا کی سب سے نایاب معدنیات کا عالمی طور پر 25 فیصد حصہ موجود ہو سکتا ہے۔ اگر یہ دعوی درست ہے تو مقدار کے حساب سے یہ پندرہ لاکھ ٹن بنتا ہے۔
یاد رہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کا حصول اہم ہو چکا ہے جبکہ انھیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
بڑی عالمی طاقتیں دنیا بھر میں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے جو ایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے چین کے سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت دو کمپنیاں نایاب معدنیات پانے پر کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے چینی سرکاری کمپنی کی سرمایہ کاری ہے