اسلام آباد۔18جون (اے پی پی):قومی اسمبلی کے اراکین نے کھادوں سمیت زرعی مداخل کی قیمت میں کمی ، زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات، سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے، پیداواری لاگت میں کمی اور ٹیکس اصلاحات پر کاربند رہنے کی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زرعی شعبے کو ترقی دے کر مجموعی ملکی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے، اراکین نے بجٹ میں پالیسی سازی کے حوالے سے جامع لائحہ عمل پیش کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے سیشن میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے رکن قومی اسمبلی ناصر اقبال نے کہا کہ پاکستان، پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے سے بڑے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور دعا کرتے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کیخلاف ایران فتح سے ہمکنار ہو،موجودہ صورتحال میں امت مسلمہ کو متحد ہونا چاہئے
ملک کے دیوالیہ ہونے کا جو شور تھا آج الحمداللہ وہ زبانیں بند ہو چکی ہیں اور لوگوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل چکا اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے جا رہا ہے، کاشتکار طبقہ مسائل کا شکار ہے جس کیلئے تجاویز رکھنا چاہتا ہوں کہ پیداواری اخراجات کو کم کریں تاکہ پیداوار بھی بڑھے اور کاشتکار کو اس کی فصل کے اخراجات سے کمی کا فائدہ ہو سکے۔ کاشتکار کیلئے بجلی اور ڈیزل، کھادوں کی قیمت کو کم کیا جائے اور آبپاشی کا پانی حاصل کرنے کے اخراجات کم کرنے کیلئے سولر پر ٹیکس بالکل ختم کیا جائے تاکہ بجلی کے بلوں کے بھاری اخراجات سے کاشتکار بچ سکے۔ ریسرچ کے شعبے فعال کئے جائیں تاکہ فصلوں اور با غات کی پیداوار کیلئے روایتی طریقوں سے نکال کر جدید طریقوں کی طرف لایا جائے تاکہ پیداواری صلاحیت اور آمدن بھی بڑھے۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی منڈیوں میں کاشتکار کی سہولت کیلئے رسائی کی سہولت ہونی چاہئے تاکہ مڈل مین کو اونے پونے داموں فصل فروخت کرنے سے کاشتکار بچ سکے۔ یہ عوامل ملک کو معاشی اور کاشتکار کو زعی اعتبار سے مستحکم کریں گے۔ رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ نے کہا کہ سولر پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کیا جائے، ملک بہتری کی جانب ہے، ایف بی آر کو گرفتاری کا اختیار دینا درست نہیں، کاروباری شعبہ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے، ہمیں بحیثیت قوم ایک ہو کر چلنا ہو گا، ملک کو بحران سے نکالنا ہے، صرف سیاست نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پیشکش کی تھی کہ چلیں بجٹ مل کر بنا لیتے ہیں لیکن انہوں نے تو سیاست کرنی ہے، سندھ کی ترقی دیکھنی ہے تو ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہاں کہاں ترقی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے جو قومی بیانیہ پیش کیا عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی اس پر خراج تحسین پیش کیا جائے۔ سکھر موٹروے کے منصوبے کیلئے 15 ارب روپے ناکافی ہیں۔
رکن قومی اسمبلی شاہد عثمان نے کہا کہ بھارتی جارحیت کیخلاف منہ توڑ جواب دینے پر افواج پاکستان کی جرات، ہمت اور جوانمردی کو سلام پیش کرتے ہیں، پاکستانی قوم متحد ہے اور آئندہ بھی کسی جارحیت کا منہ توڑ جواب سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دے گی۔ ایسی پیشہ وارانہ فوج دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس نہیں پاکستان ذمہ دار جوہری ملک ہے جو اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے مشکل فیصلے کئے اور آج ملک کے تمام معاشی اشاریے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔ پاکستان سرپلس کرنٹ اکائونٹ کی توقع کر رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ روپے کی قدر میں استحکام رہا، ترسیلات زر میں اضافہ ہے 38 ارب رواں مالی سال کے اختتام تک پہنچ جائیں گے، اقتصادی بہتری کیلئے بے شمار سخت فیصلے لینے پڑے۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے بھرپور ساتھ دیا اور آج ہم دیوالیہ ہونے سے بچ کر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے ہیں۔
گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ میرے حلقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے 2014ء میں ہمارے قائد نوازشریف نے ہسپتال منظور کیا تھا جو 11 لاکھ کی آبادی کیلئے واحد ہسپتال ہو گا اسے فی الفور بحال کیا جائے جو پی ٹی آئی نے بند کر دیا تھا، عالم چوک فلائی اوور کی ضرورت ہے۔ سید علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ حکومت کو مالی سال 2025-26ء کا بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ہم سب نے بڑی تنقید کی لیکن ہمیں محسوس کرنا چاہئے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے بجٹ سے کب جان چھڑانی ہے۔ ہمیں اکنامک نیشنل ازم کے بارے میں سوچنا ہو گا اور وہ میڈان پاکستان کا سلوگن ہونا چاہئے۔ بانی پی ٹی آئی ہر چیز پر ٹویٹ کرتا ہے لیکن انہوں نے نیتن یاہو کی جارحیت پر ایک ٹویٹ نہیں کہا، ہم زرعی معیشت ہیں ہمیں کاٹن ایمرجنسی لگانی چاہئے تاکہ زرمبادلہ کمایا جا سکے۔ فوراً نیشنل سیلف رپلائنٹ پالیسی کا اعلان کیا جائے اور میڈان پاکستان پر انحصار کرینگے۔ رکن قومی اسمبلی علی جدون نے کہا کہ آئی ٹی ایکسپورٹر کو بجٹ میں رعایت ملنی چاہئے۔
فاٹا اور پاٹا پر سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے تاکہ وہاں صنعتیں لگیں۔ ایف بی آر کے اختیارات اس قدر نہ بڑھائے جائیں کہ کاروباری طبقہ تنگ آ جائے، سولر پینلز پر ٹیکس میں مکمل چھوٹ ہونی چاہئے، معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اختر بی بی نے کہاکہ کراچی خضدارشاہراہ کو جلد مکمل کیا جائے، کچھی کینال منصوبہ کا دوسرا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے، عوام دوست بجٹ بنانے پربلوچستان کے عوام کی جانب سے حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ بجٹ میں قومی پالیسی سازی کے حوالہ سے کوئی اقدام شامل نہیں کیا گیا، بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی خوش آئند ہے، براہ راست ٹیکسوں میں سندھ کا حصہ 45 فیصد ہے جس میں کراچی کا حصہ 41 فیصد ہے، اسلام آباد کا سیلز ٹیکس کا حجم 15 ارب روپے ہے اس کے برعکس کراچی میں خدمات پر سیلز ٹیکس کا حجم 350 ارب روپے ہے مگر وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہاکہ مجموعی طور پر کراچی کیلئے بجٹ میں 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے تین ارب روپے کے فور منصوبہ کیلئے ہیں، یہ فنڈز ناکافی ہیں۔ انہوں نے ایف بی آر کو گرفتاریوں کے اختیارات دینے کی مخالفت کی اورکہاکہ اس سے کاروبار اورسرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سولز پینلز پر ٹیکس کی شرح میں کمی کا اعلان خوش آئند ہے۔ ملائیشیا کی طرز پر کراچی کو تجارتی دارالحکومت قرار دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ جی ڈی پی میں بہتری آ رہی ہے مگر مہنگائی کے خاتمہ کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے مطلوبہ اقدامات ضروری ہیں، کسانوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، زرعی انکم ٹیکس کا معاملہ شفاف طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ شیر علی ارباب نے کہاکہ ملک میں غربت اوربے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے، اہم فصلوں کی پیداوارمیں کمی ہوئی ہے۔ محمد ادریس خان نے کہاکہ متوازن بجٹ بنانے پروہ حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں
کوہستان کے تینوں اضلاع میں سیاحت کے فروغ کیلئے وسیع گنجائش موجودہے جس سے استفادہ کرنا ضروری ہے اس مقصدکیلئے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جائے۔ داسو اوردیامیر بھاشا ڈیم ہمارے حلقہ میں بن رہے ہیں، اس طرح کے مزیدمنصوبوں کی گنجائش موجودہے حکومت ملکی معیشت کیلئے اس سے استفادہ کرے۔ عامرمگسی نے بجٹ میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ خطہ میں کشیدگی کا ضروری ہے، بھارتی جارحیت کے خلاف مسلح افواج نے شاندار کارکردگی کامظاہرہ کیا ہے، سفارتی سطح پر بلاول بھٹو زرداری اور حکومت کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہاکہ زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے بجٹ میں خاطرخواہ اقدامات شامل نہیں کئے گئے ہیں اس کے نتیجہ میں خوراک کادرآمدی بل 10ارب ڈالرسے تجاوز کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم میں 2.2 ٹریلین روپے کا نقصان ہوا ہے، اس طرح دیگر فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے، درآمدی کاٹن پر ٹیکس نہیں ہے اس کے برعکس ملکی کاٹن پر ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔
آربی او ڈی منصوبہ کیلئے فنڈز فراہم کئے جائیں۔ محمد ارشد ساہی نے کہاکہ کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے، کسانوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے اور اب نئی فصلوں کیلئے ان کے پاس وسائل ہی نہیں بچے ہیں۔ زراعت معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے، ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو گی تو اس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے۔ ڈی اے پی کھادوں اور زرعی مداخل کی قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں، حکومت زراعت اورکسانوں کو سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے۔ انہوں نے بجلی استعمال کے سلیب کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا اورکہا کہ پی ڈی ایل اورکاربن لیوی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی جس سے عمومی مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ نصیر احمد سندھو نے کہا کہ سنگین مسائل اور علاقائی کشیدگی کے ماحول میں متوازن اورعوام دوست بجٹ پیش کرنے پروہ حکومت اور وزیر خزانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، بجٹ میں معیشت کی سمت کا تعین کر دیا گیا ہے، بجٹ میں غیر حقیقی وعدوں کی بجائے عملی اقدامات کی تجاویز دی گئی ہیں
مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اقدامات ضروری ہیں کیونکہ صرف اسی صورت میں بجٹ کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مہنگائی کا تحفہ موجودہ حکومت کو پی ٹی آئی کے حکومت سے وراثت میں ملا تھا، حکومت نے جامع اقدامات کے ذریعہ مہنگائی کوکنٹرول کیا، اس وقت 20 کلو آٹے کا تھیلہ 1400 روپے میں دستیاب ہے، اسی طرح دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔ا نہوں نے کہاکہ افواج پاکستان نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کا سرفخر سے بلند کر دیا ہے۔ ہمیں مسلح افواج کومضبوط کرنے اوران کا بھرپور ساتھ دینا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ پہلی بارحکومتی اخراجات میں کمی کردی گئی ہے، ٹیکس چوروں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے، ٹیکس وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔انشا اللہ آئندہ کے اہداف بھی حاصل کئے جائیں گے۔انہوں نے کسانوں کوکھادیں اورمشینری رعایتی قیمتوں پرفراہم کرنے کامطالبہ کیا۔عبدالحکیم بلوچ نے کہاکہ زراعت اورسولر پینلز پر ٹیکس نہیں ہوناچاہئے، عام آدمی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات پانے کیلئے سولرکااستعمال کرتا ہے،
سکھرسے کراچی تک موٹروے کیلئے 15ارب روپے کے فنڈز ناکافی ہیں۔سندھ پاکستان کامعاشی مرکز ہے، کراچی میں دوبندرگاہیں ہیں، پورے ملک کی تجارت قومی شاہراہ سے ہو رہی ہے، سندھ میں شاہراہوں کے منصوبوں کوجلدمکمل کیاجائے۔انہوں نے کہاکہ ملیر میں ہائوسنگ سوسائٹیز، اونچی عمارتوں اور سب سائل واٹرکی وجہ سے زمین 15سینٹی میٹردھنس چکی ہے، ملیرمیں زراعت تباہ حالی کاشکارہے،وفاقی اورصوبائی حکومت سے بھی ہمارامطالبہ ہے کہ زرعی زمین کوکمرشل زمین بنانے سے گریزکیاجائے۔انہوں نے سٹیل ملزکے ملازمین کے ساتھ منصفانہ سلوک روارکھنے کامطالبہ کیا۔ رکن قومی اسمبلی محبوب شاہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چکدرہ روڈ کی تعمیر کی جائے، ٹیکسوں کو واپس لیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی عرفان علی لغاری نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کو عالمی سطح پر بہترین سفارتی مشن کے ذریعے پاکستان کا پرامن بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
پی ایس ڈی پی میں سندھ کیلئے نئے پراجیکٹ لانے چاہئیں۔ صحت اور تو انائی کے شعبہ میں سندھ کو جائز حصہ ملنا چاہئے، لوڈ شیڈنگ کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ کاشتکاروں کو سہولت دینی چاہئے تاکہ پیداوار کے ساتھ کاشتکار کو خاطر خواہ معاوضہ ملے، سولر کو ٹیکس سے مستثنیٰ ہونا چاہئے۔ رکن قومی اسمبلی نزہت صادق نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں ملک ترقی اور خوشحالی کی جانب بڑھ رہا ہے، 2023ء کے وسط میں بدترین معاشی تباہی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا لیکن شہباز شریف کی قیادت میں ملک میں معاشی استحکام لانے کیلئے مشکل فیصلے کئے گئے۔ سٹینڈ بائی آئی ایم ایف معاہدے سے 3 ارب ڈالر کی مالی مدد ملی جس سے اپنے معاشی نظام کو چلایا اور آج ہم آگے بڑھ رہے ہیں، فاٹا اور پاٹا جیسے علاقوں کو معاشی دھارے میں لایا گیا ہے، ڈیجیٹل میپنگ کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کاروبار غیر مستحکم ماحول میں کام نہیں کر سکتا جس کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا ہے، سی پیک کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ ہمیں ہماری افواج پر فخر ہے، ہمارے قومی وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر کامیابیاں مل رہی ہیں، پاکستان کے بیانیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس کی کامیابی ملی ہے، گلگت بلتستان سے گوادر تک پاکستان کو یکساں ترقی دے رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے طاقتور دشمن کو اس کی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جس سے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا۔ رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور کہا کہ بجٹ نظرثانی ہونا چاہئے لیکن یہ بجٹ حساب کتاب کا بجٹ ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہیں بڑھنی چاہئیں، پنشنرز کو سہولت دینی چاہئے ۔ کاربن لیوی اور سولر پر ٹیکس پر چھوٹ ہونی چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے جو بجٹ رکھا گیا وہ ناکافی ہے اسے کم از کم ڈبل ہونا چاہئے۔
پی آئی ایس پی کے پیسے خواتین کی بااختیاری پر لگائے جائیں۔ بلوچستان اور کے پی کے میں امن ناگزیر ہے، تمباکو نوشی کو لگژری قرار دے کر ٹیکس بڑھایا جانا چاہئے۔ رکن قومی اسمبلی محمد جمال احسن خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بے گناہ مسلمانوں کے قاتل نیتن یاہو کی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقہ کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، میانوالی، عیسیٰ خیل کے ان علاقوں کو پینے کے پانی کی سکیموں کی اشد ضرورت ہے۔ گیس فیلڈز کے سی آر ایس کے فنڈ علاقے کی سکیموں پر خرچ کئے جائیں اس حوالے سے رولنگ جاری کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی کی سطح 800 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے آبپاشی کے لئے متبادل نظام دیا جائے۔ پورے عالم اسلام پر صیہونی حملے ہو رہے ہیں اس لئے امت مسلمہ کو سوچنا چاہئے۔ رکن قومی اسمبلی جاوید اقبال وڑائچ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اضافی ٹیکس سے عوام پر بوجھ بڑھے گا، تعلیم، صحت پر بجٹ بڑھایا جائے۔
مزدور کی کم از کم اجرت میں اضافہ ہونا چاہئے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے فنڈ زہونے چاہئیں۔ سولر پر ٹیکس کم کر دیا گیا ہے وہ خوش آئند ہے 10 فیصد سے بھی کم ہونا چاہئے تھا۔ عباسیہ لنک کنال میں شگاف پڑ گیا تھا اسے بھی درست کیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی عادل خان بازئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ہارڈ ایریا ڈیکلیئر کیا جائے اور وہاں کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ آٹو سپیئر پارٹس پر ٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔ رکن قومی اسمبلی مجاہد علی نے کہا کہ ملک تمام نعمتوں سے مالا مال ہے، ہمیں اس ملک کو اپنے گھر کی مانند دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران نے اسرائیلی جارحیت کا بھرپور جواب دیا ہے۔ دعاگو ہیں کہ اللہ انہیں کامیابی سے ہمکنار کرےپاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف جس طرح جواب دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ کلمہ حق بلند کرتے ہوئے افواج پا کستان نے اپنے سے بڑے دشمن کا جراتمندی کے ساتھ جواب دیا۔
رکن قومی اسمبلی رضا علی گیلانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے 1982ء میں کہا کہ یو ایس ایس آر ایک دہشت گرد قوت ہے اس کے ٹکڑے ہونے چاہئیں۔ پھر اس نے عراق پر خطرناک ہتھیاروں کا الزام لگایا، شام، لیبیا، مصر اور ایران پر حملے کر رہا ہے۔ ملک کے دفاع کیلئے ہم سب کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہودی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے جن دن حکومت اور اپوزیشن ملکر بجٹ بنائیں تو اس کا فائدہ ملک کو ہوگا اور اس بجٹ کی مخالفت کوئی نہیں کرے گا۔ رکن قومی اسمبلی علی اصغر خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 2.2 کھرب روپے ٹیکس چھوٹ کی صورت میں بڑے بڑے اجارہ داروں میں بانٹے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس عوام کیلئے رعایت نہیں چھوٹے کسانوں کو فائدہ دینے کی ضرورت ہے، پی آئی ایس پی میں بھی فائدہ کم رکھا گیا ہے۔ پی ایس ڈی پی میں جتنا پیسہ رکھا گیا ہے وہ غریبوں کی سکیموں پر لگانے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے
ہماری فضائیہ دنیا کی بہترین فضائیہ ہے۔ رکن قومی اسمبلی سعد اللہ خان بلوچ نے کاشتکاروں کیلئے مراعات کی بات کی۔ رکن قومی اسمبلی مغداد علی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ہمیں ایران کا ساتھ دینا چاہئے۔ یوٹیوبز پر 78 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے جس سے سوشل میڈیا کے ذریعے روزگار کمانے والے مشکلات کا شکار ہونگے اس پر نظرثانی کی جائے۔ پولٹری سیکٹر 15 لاکھ سے زائد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے اسے بھی سہولت دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے فیڈ اور بجلی مہنگی کرنا ہو گی۔