زراعت پرفوری توجہ نہ دی تو فوڈ سیکورٹی نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ بن جائے گا،پاکستان کو زرعی شعبے میں درآمد کنندہ کی بجائے برآمد کنندہ بنائیں گے، وزیراعظم عمران خان کا کنونشن سنٹر میں نیشنل کسان کنونشن سے خطاب

94

اسلام آباد۔1جولائی (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے غذائی تحفظ کو مستقبل میں سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت کے شعبے پر فوری توجہ نہ دی تو فوڈ سیکورٹی نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ بن جائے گا،ہم زرعی تحقیق، بہترین بیج، کاشت کے مخصوص علاقہ جات کی نشاندہی، چھوٹے کسانوں کو تربیت اور قرضے دینے، کسان کارڈ کے ذریعے ڈائریکٹ سبسڈی اور جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لا کر غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو زرعی شعبے میں درآمد کنندہ کی بجائے برآمد کنندہ بنائیں گے، ماضی میں کسی حکومت نے زراعت، صنعت، سیاحت اور عام آدمی اور کمزورطبقے پر توجہ نہیں دی اور ان کی بہتری کا نہیں سوچا، چین نے 35 سالوں میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، ریاست مدینہ کا کام کمزور طبقے کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ وہ جمعرات کو کنونشن سنٹر میں نیشنل کسان کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔

وفاقی وزیر غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام، معاون خصوصی برائے غذائی تحفظ جمشید اقبال چیمہ نے بھی کنونشن سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لئے آنے والے وقت میں بہت سے چیلنجز ہیں، فوڈ سیکورٹی ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے، گزشتہ سال ہم نے 40 لاکھ ٹن گندم درآمد کی ہے جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوا، پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، آنے والے وقتوں میں اتنی بڑی آبادی کے لئے اناج پیدا کرنا اور ان کی غذائی ضروریات پوری کرنا بہت بڑا مسئلہ ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں آنے والے وقت کی تیاری کرنی ہے اور ایسا ملک نہیں بننا جو اپنے عوام کی غذائی ضروریات بھی پوری کر سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں 40 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی مناسب نشو و نما نہیں ہو پاتی، دودھ جو بچوں کی بنیادی ضرورت ہے، کی فراہمی بہت بڑا مسئلہ ہے، شہروں میں ایسا دودھ بیچا جا رہا تھا جو واشنگ مشین میں یوریا اور عجیب و غریب چیزیں ڈال کر بنایا جا رہا تھا جب ہم نے سختی کی تو دودھ کی قیمت بہت بڑھ گئی، جب مزید تحقیقات کرائیں تو پتہ چلا کہ ہمارے دودھ دینے والے جانور چین اور یورپ کے مقابلے میں 6 گنا کم دودھ دیتے ہیں، کسی نے ماضی میں جانوروں کی بہتر نسلوں کی تیاری کے بارے میں سوچا ہی نہیں،

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے سے طبقے نے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے، تمام سہولیات اور مراعات ان کے لئے ہیں، ترقی کے عمل میں عام آدمی کو شامل ہی نہیں کیا گیا جس طرح انگریزوں نے یہاں قابض ہونے کے بعد اپنے لئے الگ علاقے بنائے ہوئے تھے اسی طرح مراعات یافتہ طبقے کے لئے انگلش میڈیم سکول اور پرائیویٹ ہسپتال بن گئے اور تعلیم اور صحت کا سرکاری نظام تباہ ہو کر رہ گیا،

عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا کیونکہ وہ مہنگے وکیلوں کی خدمات حاصل نہیں کر سکتا، قبضہ گروپ وجود میں آ گیا، لمبے عرصے تک زمینوں کے کیس چلتے رہتے ہیں، حل نہیں ہوتے، زراعت کے شعبے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب تک چھوٹے کسان کی مدد نہیں کی جائے گی وہ اچھے بیج حاصل نہیں کر سکتا، اپنی زمین پر پیسہ نہیں لگا سکتا، اپنی فصل کو ذخیرہ نہیں کر سکتا، اس لئے کسانوں سے سستے داموں اجناس خرید کر مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں،

ملکی نظام نے ہر جگہ چھوٹے طبقے کو نظر انداز کیا جبکہ حکومت کا کام کمزور طبقے کی دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے، میں مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں، مدینہ کی ریاست انصاف، انسانیت اور خودداری کے اصولوں پر قائم تھی جس نے نچلے طبقے کو اٹھایا، چین نے بھی اسی اصول پر عمل کیا اور 35 سالوں میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ انہوں نے دیہاتوں میں اپنے چھوٹے کسان کی مدد کی،

ہمیں بھی 74 سال پہلے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں تھے لیکن ہم نے نہیں کئے، اگر ہم نے اب بھی اقدامات نہ کئےتو فوڈ سیکورٹی نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ بن جائے گا، کسی بھی ملک میں اگر 15 سے 30 فیصد لوگ بھوکے ہوں گے تو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمیں کھانے پینے کی اشیاء باہر سے منگوانا پڑتی ہیں، ہمیں اس صورتحال کا تدارک کرنا ہو گا ورنہ یہ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور مخلوق کو ایسی صلاحیت سے نہیں نوازا جیسی انسانوں کو عطا کی ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر طرح کے وسائل سے مالا مال کیا لیکن ہم نے اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا، بلوچستان میں ہم طرح طرح کی چیزیں اگا سکتے ہیں لیکن کسی نے اس بارے میں سوچا ہی نہیں، اسرائیل جسے ہم فلسطینیوں پر مظالم اور مسئلہ فلسطین کی وجہ سے تسلیم نہیں کرتے اس نے زرعی تحقیق اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی اور ریگستان میں فصلیں اگائیں، ہمیں اپنے کسان کی مدد کرنی ہے، زرعی تحقیق کر کے کسانوں کو آگاہ کرنا ہے کہ ان کے علاقے کے لئے کون سی فصل بہتر ہے، کسانوں کو اچھا بیج فراہم کرنا ہے،

جدید تکنیک کو بروئے کار لانا ہے اور کسانوں کو تربیت دینی ہے، ہم نے سی پیک میں زراعت کو بھی شامل کیا ہے، چین کی زرعی ٹیکنالوجی اور تجربات سے استفادہ کریں گے اور چین کی طرز پر دیہات میں بسنے والے اپنے چھوٹے کسانوں کی مدد کریں گے جن کے پاس وسائل نہیں ہیں اور بینک انہیں قرضے نہیں دیتے، انہیں قرضے فراہم کریں گے، پنجاب نے کسان کارڈز کے سلسلے میں زبردست کام کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس چولستان، ڈی آئی خان،

سابقہ قبائلی اضلاع سمیت بے تحاشا زرعی زمین موجود ہے، وہاں نئی زرعی تکنیک کو بروئے کار لائیں گے اور زیتون کی کاشت کریں گے جس کے ذریعے ہم چند سالوں میں امپورٹر کی بجائے ایکسپورٹر بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے، کسانوں کے لئے جدید تحقیق کو بروئے کار لا کر اور زوننگ کرا کے ہم اپنے وسائل کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ کسانوں سے ملتے اور ان کے مسائل معلوم کرتے رہیں گے، ہمارے 30 فیصد پھل اور سبزیاں ذخیرہ کرنے اور ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جاتی ہیں، کسان کو خوشحال کریں گے تو وہ اپنی زمین پر پیسہ لگائے گا، ہم نے گنے کے کسانوں کے لئے بروقت کرشنگ، ادائیگی اور پوری قیمت کو یقینی بنایا، پہلی بار کسانوں کے پاس اتنا پیسہ آیا ہے، 1100 ارب روپے کسانوں کو ملے، انہوں نے وہ پیسہ فصلوں پر لگایا اس لئے ریکارڈ پیداوار ہوئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی صلاحیت اور وسائل فراہم کئے ہیں کہ ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں، صرف سیاحت سے ہی ہم بے تحاشا پیسہ کما سکتے ہیں لیکن ماضی کی حکومتوں نے زراعت، صنعت، سیاحت اور عام عوام کے لئے تعلیمی سہولیات کی فراہمی پر توجہ نہیں دی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو خاص مقصد کے لئے بنایا ہے، قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کے لئے ایک مثال بنے گا، مجھے امید ہے کہ پاکستان آنے والے وقتوں میں ایک خاص مقام کا حامل ہو گا۔