سالانہ پلان کوارڈی نیشن کمیٹی کی نئے مالی سال 2023 کیلئے 800 ارب روپے مالیت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو قومی اقتصادی کونسل کے روبروپیش کرنے کی سفارش

73

اسلام آباد۔4جون (اے پی پی):سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے نئے مالی سال 2023 کیلئے 800 ارب روپے مالیت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو قومی اقتصادی کونسل کے روبروپیش کرنے کی سفارش کی ہے، مجوزہ پی ایس ڈی پی میں 171 جاری اور902 نئے منصوبوں کوشامل کیاگیاہے جس کا تناسب 89:11 بنتاہے۔نئی مالی سال کا سالانہ ترقیاتی پروگرام 800 ارب روپے کاہوگا جس میں 70 ارب روپے کی غیرملکی امدادشامل ہے۔ 80 فیصداخراجات کی تکمیل کے حامل منصوبوں کو جون 2023 تک مکمل کیاجائیگا،جدیدبنیادی ڈھانچہ کی تعمیراورغیرملکی سرمایہ کاری کوراغب کرنے کیلئے کل پی ایس ڈی پی کا 55 فیصد مختص کیاگیاہے۔

پانی کے شعبہ کی ترقی کیلئے 83 ارب روپے اور توانائی کے شعبہ کیلئے 84 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزہے،نئے مالی سال کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سماجی شعبہ، صحت وبہبودآبادی کیلئے 23 ارب روپے اورہزاریہ اہداف کے حصول کیلئے 60 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویزدی گئی ہیں ۔ اسی طرح خیبرپختونخوامیں ضم قبائلی اضلاع کیلئے 50 ارب، سائنس اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے 25 ارب روپے، خوراک وزراعت کیلئے 18 ارب روپے، بنیادی ڈھانچہ میں نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے 90 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں ۔

وزارت منصوبہ بندی، ترقی وخصوصی اقدامات کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق قومی اقتصادی کونسل نے 7 جون 2021 کو مالی سال 2022 کیلئے وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مدمیں 900 ارب روپے کی منظوری دی تھی جس میں 100 ارب روپے کی غیر ملکی امداد بھی شامل تھی جو مالی سال کی چوتھی سہ ماہی میں 550 ارب روپے کا ہوگیا۔ نئے مالی سال کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام کونئی حکومت کی ترجیحات اورکوروناوائرس کی عالمگیروبا کے تناظرمیں درپیش چیلنجوں اورضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کیاگیاہے۔285 ارب روپے کی لاگت کے 170 منصوبے 30 جون 2022 تک مکمل ہونے کی توقع ہے جس سے عام لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

وفاقی وزارت منصوبہ بندی،ترقی واصلاحات نے وزارت خزانہ کی مشاورت سے سہ ماہی بنیادوں پرمنصوبوں کیلئے فنڈز کی فراہمی کے طریقہ کارکومزیدآسان بنادیاہے۔ جاری مالی سال کیلئے مختص پی ایس ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے وزارتوں اورڈویژنوں کو این ای سی کی مارچ 2021 میں دی گئی ہدایت کی روشنی اور مالیاتی انتظامی ضوابط کے مطابق سست رفتار منصوبوں سے تیزی سے مکمل ہونے والے منصوبوں کیلئے فنڈز کی دوبارہ تخصیص کااختیاردیاگیا۔

نئے مالی سال 2022 کیلئے پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں جامعیت اور تمام متعلقہ شراکت داروں سے مشاورتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جاری اقتصادی صورتحال اورمالیاتی رکاوٹوں کے منطرنامہ میں مساویانہ ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔وزارت خزانہ نے نئے مالی سال کیلئے پی ایس ڈی پی کی مد میں وفاقی وزارت منصوبہ بندی کو ابتدائی طورپرانڈیکٹیوبجٹ سیلینگ (آئی بی سی) کے تحت 500 ارب روپے مختص کرنے سے مطلع کیا۔تاہم جاری منصوبوں پرعملی پیش رفت کی رفتارکوبرقراررکھنے کیلئے وزارت منصوبہ بندی نے وزارت خزانہ سے دوبارہ رابطہ کیا تاکہ پی ایس ڈی پی کے حجم کو800 ارب روپے تک بڑھایا جاسکے، وزارت خزانہ نے 700 ارب روپے پرامادگی کااظہارکیا جبکہ 800 ارب روپے کی ڈیمانڈکو اے پی سی سی کے سامنے پیش کیاگیا۔

وزارت منصوب بندی ترقی وخصوصی اقدامات کے مطابق نئے مالی سال کی پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں چھ اعشاری تین ٹریلین روے کے تھروفاروڈ منصوبوں،بیرونی امدادسے چلنے والے منصوبوں کیلئے 250 ارب کی ڈیمانڈ،صوبائی طرز کے منصوبوں کی شمولیت، صوبائی نوعیت کے منصوبوں کی مالی معاونت کیلئے قومی اقتصادی کونسل کے رہنمااصول، منصوبوں پروقت اورلاگت کی نظرثانی، سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تنزلی اوراس کے نتیجہ میں جاری منصوبوں کے حوالہ سے ڈی ڈی ڈبلیو پی سطح کے منصوبوں کیلئے اختیارکو60 ملین سے بڑھاکر2000 ملین کرنا نئے مالی سال کی پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں اہم چیلنجزرہے۔ پی ایس ڈی پی کی تشکیل میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کواپنے منصوبوں کوحقیقیت پسندانہ بنانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، وزارتوں کوصوبائی سطح کے منصوبوں کیلئے فنڈنگ کرنے کی حوصلہ شکنی کرنے اوراس کے برعکس صوبائی حکومتوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے منصوبوں کیلئے مالی معاونت فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

وزارتوں اورڈویژنز کوہدایات میں ڈی ڈی ڈبلیوپی سے منظورشدہ منصوبوں کا کیس ٹوکیس جائزہ لینے، ڈی ڈی ڈبلیوپی سطح کے وہ منصوبے جن کے 80 فیصداخراجات مکمل ہوچکے ہیں کو جون 2022 تک مکمل کرنے، بیمار اورپیش رفت نہ ہونے کے وہ منصوبے جنہیں گزشتہ تین برسوں میں کوئی فنڈز جاری نہیں ہوئے ہیں کا جائزہ لینے یا اسے ختم کرنے کی ہدایات شامل ہیں۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی نے 31 مئی سے دوجون کے دمیان تجاویز اورسفارشات کاجائزہ لینے کیلئے جو جامع میٹنگز اورمشاورتیں کیں ان کی روشنی میں مجوزہ پی ایس ڈی پی کاحجم 800 ارب روپے روپے رکھاگیا ہے جس میں 70 ارب روپے کی غیرملکی امدادبھی شامل ہیں۔پی ایس ڈی پی منظوری کیلئے قومی اقتصادی کونسل کے سامنے پیش کردیاگیاہے۔

نئی پی ایس ڈی پی میں حائل رکاوٹوں کے پیش نظرنے وزارت منصوبہ بندی ترقی وخصوصی اقدامات نے جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل کوترجیح دی ہے اوراس مقصدکیلئے وزارتوں اورمنصوبے پرعمل درآمدکرنے والی ایجنسیوں سے مشاورت کی گئی ہے۔نئی پی ایس ڈی پی میں 171 جاری اور902 نئے منصوبوں کوشامل کیاگیاہے جن کا تناسب 89:11 بنتاہے۔نئے مالی سال کاسالانہ ترقیاتی پروگرام 800 ارب روپے کاہوگا جس میں 70 ارب روپے کی غیرملکی امدادشامل ہیں۔وہ منصوبے جن کے 80 فیصداخراجات مکمل ہوچکے ہیں کوجون 2023 تک مکمل کیاجائیگا اوران منصوبوں کیلئے فنڈز فراہم کے جائیں گے۔جدیدبنیادی ڈھانچہ کی تعمیراورغیرملکی سرمایہ کاری کوراغب کرنے کیلئے کل مختص پی ایس ڈی پی کا 55 فیصد مختص کیاگیاہے۔

پانی کے شعبہ کی ترقی کیلئے 83 ارب روپے اور توانائی کے شعبہ کیلئے 84 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزہے۔وزارت توانائی سیلف فنانس کے ذریعے 84 ارب روپے حاصل کرے گی۔فزیکل پلاننگ اورہائوسنگ کے شعبہ جات کیلئے پی ایس ڈی پی میں 39 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے کیونکہ یہ شعبہ نہ صرف روزگارکے مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ دوسری صنعتوں کی بڑھوتری میں بھی اپناکرداراداکرتا ہے۔نئے مالی سال کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سماجی شعبہ، صحت وبہبودآبادی کیلئے 23 ارب روپے اورہزاریہ اہداف کے حصول کیلئے 60 ارب روپے مختص کرنے کی تجاویزدی گئی ہیں ۔

اسی طرح خیبرپختونخوامیں ضم قبائلی اضلاع کیلئے 50 ارب، سائنس اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے 25 ارب روپے، خوراک وزراعت کیلئے 18 ارب روپے، بنیادی ڈھانچہ میں نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے 90 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں ۔ سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں تمام ممبران اورمتعلقہ شراکت داروں نے نئے مالی سال کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام پرجامع مشاورت کی۔اجلاس میں قومی اقتصادی کونسل کے سامنے 2184 ارب روپے کے قومی ترقی خدوخال 2023 پیش کرنے کی سفارش کی گئی جس میں 346 ارب روپے کی بیرونی امدادبھی شامل ہیں۔