سلامتی کونسل دیرینہ تنازعات پر اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کے طریقوں پر سنجیدگی سے غور کرے، پاکستان

92
Munir Akram

نیو یارک۔20مارچ (اے پی پی):پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی قراردادوں خاص طور پر دیرینہ تنازعات پر قرار دادوں پر عملدرآمد کے طریقوں پر سنجیدگی سے غور کرے، پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ 15 رکنی ادارے کو بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے زیادہ شفاف، جوابدہ، جامع اور جمہوری بننا چاہیے۔

منگل کو سلامتی کونسل کی تنظیم نو کے لیے طویل عرصے سے جاری مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے پر سفیر منیر اکرم نے مندوبین کو بتایا کہ کوئی بھی چیز کونسل کی ساکھ کو منتخب نفاذ اور اس کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے سے زیادہ مجروح نہیں کرتی ہے ،قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکامی سلامتی کونسل کی ساکھ کو مجروح کرتی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے ذریعے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی اس کی اہلیت پر اعتماد کو ختم کرتی ہے۔اپنے ریمارکس میں پاکستان کے سفیر نے سلامتی کونسل کے کام کرنے کے طریقوں میں شفافیت، احتساب اور شمولیت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا، اور بامعنی اصلاحات کے حصول کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں کو الگ الگ لیکن تکمیلی کردار تفویض کرتا ہے،

منیر اکرم نے کہا کہ ہم سب کو سلامتی کونسل کی طرف سے جنرل اسمبلی کے افعال اور اختیارات پر مسلسل تجاوزات ،خاص طور پر، قانونی معیارات قائم کرنے اورجنرل اسمبلی کے دائرہ کار میں آنے والے مختلف مسائل کے لئے تعریفیں کے تعین کے حوالے سے پر سنجیدگی سے تشویش ہونی چاہیے ۔سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے فروری 2009 میں جنرل اسمبلی میں پانچ کلیدی مجموعوں پر مکمل مذاکرات شروع ہوئے ،جن میں رکنیت کے زمرے، ویٹو کا سوال، علاقائی نمائندگی، توسیع شدہ سلامتی کونسل کا حجم، اور کونسل کے کام کرنے کے طریقے اور جنرل اسمبلی کے ساتھ اس کا تعلق شامل ہیں ۔

اقوام متحدہ کے اصلاحاتی عمل کے ایک حصے کے طور پر کونسل کو وسعت دینے پر ایک عمومی معاہدے کے باوجود، رکن ممالک تفصیلات پر منقسم ہیں۔چار کے نام نہاد گروپ جس میں بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان شامل ہیں جو کونسل میں اپنے لیے مستقل نشستیں چاہتے ہیں، نے کونسل کو 10 نشستوں تک بڑھانے کے لیے اپنے دباؤ میں کوئی لچک نہیں دکھائی، جس میں چھ اضافی مستقل اور چار غیر مستقل ارکان کا مطالبہ شامل ہے جبکہ دوسری طرف، اٹلی؍پاکستان کی قیادت میں اتحاد برائے اتفاق رائے (یو ایف سی ) گروپ ہے ، جو کہ اضافی مستقل اراکین کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، نے اراکین کی ایک نئی کیٹیگری تجویز کی ہے کہ مزید مستقل ارکان کے بجائے سلامتی کونسل کے طویل المدت غیر مستقل ممبران ہوں جن کا دوبارہ انتخاب ممکن ہو۔

اپنے مباحثے میں منیر اکرم کی طرف سے بیان کردہ اہم نکات میں مستقل اراکین کے غیرضروری اثر و رسوخ کو روکنے کے ساتھ ساتھ کونسل کی جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کھلے اجلاسوں میں باہم بات چیت کی ضرورت،مکمل شفافیت، بشمول جنرل اسمبلی کو رپورٹنگ کے معیار اور تعدد کو بڑھانا اور عوامی میٹنگوں اور مباحثوں کا انعقاد،مباحثوں میں شمولیت، غیر کونسل کے اراکین کی ان کی درخواست پر خودکار شرکت کی اجازت دینا،’’پین ہولڈر‘‘ )کونسل کی قرار دادوں کے مسودوں پر مذاکرات کرنے اوریہ مسودے تیار کرنے والے ارکان ) کےنظام کا خاتمہ یا اصلاح،ذیلی اداروں کے چیئرز کی تقرری کے لیے جمہوری عمل، کونسل کی انسداد دہشت گردی اور پابندیوں کے نفاذ میں زیادہ شفافیت اور غیر امتیازی سلوک کے ساتھ مناسب عمل اور مؤثر انسداد کو یقینی بنانے کے لیے ان کی اصلاح کرنا شامل ہے۔