سندھ اسمبلی میں قائد حزب نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں صوبائی کابینہ کی مجوزہ ترامیم کو مسترد کردیا

78

کراچی۔22فروری (اے پی پی):سندھ اسمبلی میں قائد حزب نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں صوبائی کابینہ کی مجوزہ ترامیم کو مسترد کردیا میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں صوبائی کابینہ کی مجوزہ ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب اسے سپریم کورٹ کی ہدایت اور پاکستان کا آئین مطابق بنایا جائے۔

سندھ اسمبلی بلڈنگ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی خرم شیرزمان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما سبحان علی ساحل کے ہمراہ منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سندھ کابینہ کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بغیر متنازعہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں کچھ ترامیم کی منظوری دینے پر حکومت سندھ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے پیپلز پارٹی کی حکومت کا فریب اور تاخیری حربہ قراردیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی کے ایوان میں یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام نمائندہ جماعتوں کی مشاورت سے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ایس ایل جی اے 2013 پر نظر ثانی کے لیے ایک سلیکٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی ہم سے مشاورت کے لئے اپوزیشن کے اراکین کے نام مانگے تھے ہم نے اپنے اراکین کے نام پارلیمانی امور کے وزیر کو دیئے ہیں لیکن وہ نام آج تک اسپیکر سیکرٹریٹ میں جمع نہیں کرائے گئے۔

سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ سے معلوم ہوا کہ ابھی تک کوئی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی ہے، ہمیں خدشہ ہے 23 فروری کے اجلاس میں کچھ ترامیم کے ساتھ دوبارہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو پیش کیا جائے گا۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ جاری اجلاس کے پہلے دن سے ہی اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو بات کرنے دینے کے وعدے کی خلاف ورزی کی جبکہ مذکورہ سلیکٹ کمیٹی کو ابھی تک نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ پی پی پی دھوکہ دہی اور فریب پر یقین رکھتی ہے لیکن ہم انہیں ایک اور موقع دینا چاہتے تھے اور عوام کے سامنے ان کی فریب کاری کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے۔

پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں شروع دن سے ہی سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے کالے قانون کی مخالفت کر رہی ہیں کیونکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ایس ایل جی اے 2013 کے 21 سیکشنز اور 3 شیڈولز اآئین کے آرٹیکل 140اے کی اصل روح کی نفی کرتے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ نے بھی اس کے سیکشن 74 اور 75 کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک تمام متنازعہ دفعات کو قانون سے ختم نہیں کیا جاتا، پی ٹی آئی کالے قانون کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھے گی۔حلیم عادل شیخ نے مزید کہا ثابت ہوگیا بات چیت کا جو راستہ اختیار کیا گیا تھا انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔

سندھ کابینہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ایم ڈی اے، کے ڈی اے و دیگر اداروں کا ممبر میئر ہوگا لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ ان کے پاس کیا اختیار ہوگا، یہ ماموں بھانجے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سب کجھ ٹھیک کر دیا گیا، ہمارا موقف ہے کچھ ٹھیک نہیں ہوا، دونمبری کے ذریعے یہ کالا قانون دوبارہ پیش کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی آئینی تقاضوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے لیے سندھ اسمبلی میں اور سڑکوں پر بھی مظاہرے کرے گی اور اگر ہمیں بلدیاتی قانون اور سندھ کے دیگر مسائل پر اسمبلی میں بولنے کی اجازت نہ دی گئی تو پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ وزیراعلیٰ ہائوس اور بلاول ہائوس کے باہر دھرنا دیں گے۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ میں ڈاکو راج قائم ہے، صحافی اطہر متین و دیگر شہریوں کو مزاحمت پر قتل کر دیا گیا، سندھ میں قاتل راج قائم ہے، نوکوٹ میں دو لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کے حامیوں نے بدسلوکی اور بے عزتی کی جبکہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے نوٹ کیا اور الزام لگایا کہ فہمیدہ سیال، ناظم جوکھیو اور بھنڈ برادری کے 5 افراد کے قاتل سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اٹھانا چاہتی ہے۔ نمرتا، نوشین شاہ کا قتل اور پروین رند اور بختاور سومرو کو یونیورسٹیوں میں ہراساں کرنا، نوکوٹ میں کنول اور فضا پر تشدد اور نواب شاہ میں بھنڈ برادری کے 5 افراد کا قتل لیکن سپیکر نے ہمیں بطور ممبر اسمبلی اپنا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔

محکمہ پراسیکیوشن کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کے باعث پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے 7800 ملزمان عدالتوں سے ضمانتیں کروانے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ محکمہ تفتیش اور پراسیکیوشن کے اہلکار رشوت لے کر مقدمات کو کمزور کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او سے وضاحت طلب کرنا کافی نہیں ہے،

مراد علی شاہ کو ہٹائے بغیر حالات بہتر نہیں ہوسکتے جو بطور وزیر داخلہ سندھ کے چیف ایس ایچ او ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘سیف سٹی پراجیکٹ’ جرائم کی روک تھام اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم پروگرام ہے لیکن پیپلز پارٹی نے اسے برسوں سرد خانے میں رکھا اور اب جب یہ منصوبہ ٹینڈرنگ کے مرحلے میں داخل ہوا تو کرپشن کے حوالے سے بدنام زمانہ مقصود میمن کو پراجیکٹ کا انچارج بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پی پی پی سندھ حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کرنے اور سندھ کے عوام کے حقوق کے لیے مئوثر آواز اٹھانے کے لیے 26 فروری کو گھوٹکی سے حقوق سندھ مارچ شروع کرنے جا رہی ہے۔ ہم انہیں ان کے تمام جرائم اور خطاؤں کا جوابدہ بنائیں گے اور انہیں عوام کو صحت، تعلیم، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، ویکسین کی کمی، ایڈز اور خسرہ کی وبا، زمینوں پر قبضے اور وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہ کن صورتحال کے بارے میں وضاحت کرنا ہوگی۔

سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیرزمان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ کو ان کی سربراہی میں تمام وزارتوں اور محکموں میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مراد شاہ کو ان کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ‘نالائق اعلیٰ’ کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔

اور بیڈ گورننس اور صوبائی حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو نبھانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر قابو سے باہر ہے کیونکہ عام شہریوں کے بعد اب صحافی بھی نشانے پر ہیں جب کہ شہریوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے اور اسٹریٹ کرائمز بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سال 2021 کے دوران صرف کراچی میں جرائم کے 80,000 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ خرم شیرزمان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سندھ ہائی کورٹ میں امن و امان کی تشویشناک صورتحال کے حوالے سے درخواست دائر کی،

سندھ اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرائی، وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا اور وزیراعلیٰ ہاؤس تک مارچ بھی کیا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر توجہ دلانے کے لیے آج وزیر داخلہ شیخ رشید کو خط لکھا گیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت کی ناکامی کے بعد وفاقی حکومت کا ایکشن ناگزیر ہوگیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کے لیے رینجرز کو بااختیار بنایا جانا چاہیے۔