29.9 C
Islamabad
ہفتہ, اپریل 19, 2025
ہومقومی خبریںسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ میں 125 بیسس پوائنٹس اضافہ...

سٹیٹ بینک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ میں 125 بیسس پوائنٹس اضافہ کا فیصلہ، پالیسی ریٹ 15 فیصد کر دیا گیا

- Advertisement -

اسلام آباد۔7جولائی (اے پی پی): سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پالیسی ریٹ میں 125 بیسس پوائنٹس اضافہ کا فیصلہ کیا ہے، زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے جمعرات کو اپنے ایک اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 125 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گزشتہ زری پالیسی بیان میں اس حوالہ سے اشارہ دیا گیا تھا، زری پالیسی کی ترسیل کو مضبوط کرنے کیلئے ای ایف ایس اور ایل ٹی ایف ایف کے قرضوں پر شرح ہائے سود کو اب پالیسی ریٹ سے منسلک کیا جا رہا ہےجبکہ پالیسی ریٹ کے مقابلے میں 500 بیسس پوائنٹس کے ڈسکائونٹ کی پیشکش سے برآمدات کو ترغیب دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلامیہ کے مطابق اس مجموعی اقدام کے ذریعے گزشتہ ستمبر سے جاری زری سختی کا عمل برقرار رکھا جا رہا ہے جس کا مقصد انتہائی دشوار اور غیر یقینی عالمی ماحول میں معیشت کو ہموار طور پر چلایا جانا ہے۔ اس سے معاشی سرگرمی میں سست روی لانے، مہنگائی کی توقعات کو غیر مستحکم ہونے سے روکنے اور کئی سال کی بلند ترین مہنگائی اور ریکارڈ درآمدات کے بعد روپے کو سہارا فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایم پی سی کے گزشتہ اجلاس کے بعد ایم پی سی نے تین حوصلہ افزا پیش رفتیں نوٹ کیں۔ جن کے توانائی کی سبسڈی کا ناپائیدار پیکیج ختم کر دیا گیا اور مالی سال 2023ء کے بجٹ میں مضبوط مالیاتی یکجائی کی منظوری دی گئی۔ اس سے آئی ایم ایف پروگرام کے جاری جائزے کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی ہے جس سے یہ امر یقینی ہو جائے گا کہ پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات سے منسلک ذیلی خطرات دور ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ چین سے 2.3 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بہت سہارا ملا جو جاری کھاتے کے دبائو، بیرونی قرضے کی واپسی اور نئی بیرونی رقوم کے فقدان کے باعث جنوری سے گر رہے تھے۔ معاشی سرگرمیاں مضبوط ہیں اور گزشتہ دو سال کی تقریباً 6 فیصد نمو کی رفتار مالی سال 2023ء کے آغاز میں بھی جاری ہے۔ نتیجے کے طور پر پاکستان کو بیشتر ایسے ملکوں کے مقابلے میں جہاں کووڈ کے بعد کی بحالی اتنی توانا نہیں رہی ہے، نمو اور مہنگائی کے درمیان کافی کم سطح کے سمجھوتے کا سامنا ہے۔ ایس بی پی نے کہا ہے کہ تاہم کئی منفی واقعات نے اس مثبت خبر کو گہنا دیا ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی بیشتر ممالک میں کئی عشروں کی بلند ترین سطح پر ہے اور مرکزی بینک جارحانہ انداز سے کارروائیاں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بیشتر ابھرتی ہوئی کرنسیوں پر قدر میں کمی کا دبائو ہے۔ یہ مضبوط زری سختی اس تشویش کے باوجود کی گئی ہے کہ عالمی نمو میں سست روی بلکہ کساد بازاری تک کے خطرات ہیں جس سے یہ امر اجاگر ہوتا ہے کہ مرکزی بینک اس وقت مہنگائی کو قابو کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ملکی سطح پر جب توانائی کی سبسڈیز واپس لی گئیں تو عمومی اور قوزی مہنگائی دونوں جون میں کافی بڑھ گئیں اور 14 سال کی بلند ترین سطح تک جا پہنچیں۔ صارفین اور کاروباری اداروں کی مہنگائی کی توقعات بھی نمایاں طور پر بڑھ گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ مئی میں جاری کھاتے کا خسارہ غیر متوقع طور پر بڑھ گیا اور تجارتی خسارہ کے بڑھنے کا مارچ کے بعد کا رجحان جاری رہا جو جون میں 7 ماہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا جس کا سبب بے پناہ بڑھتی ہوئی توانائی کی درآمدات تھیں۔ نتیجے کے طور پر زر مبادلہ کے ذخائر اور روپیہ دبائو میں رہا اور مہنگائی کا منظرنامہ مزید بگڑ گیا۔ ایسے دشوار حالات میں زری پالیسی کمیٹی نے ملکی طلب کو معتدل کرنے، مہنگائی کے دبائو کو بڑھنے سے روکنے اور بیرونی استحکام کو لاحق خطرات میں کمی کیلئے ٹھوس، بروقت اور قابل بھروسہ اقدامات کی اہمیت کا ذکر کیا۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان کو بلند مہنگائی کے باعث منفی آمدنی کے بڑے دھچکے اور یوٹیلٹی اشیا کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں مشکل لیکن ضروری اضافے کا سامنا ہے ۔ فیصلہ کن کلی معاشی ردوبدل کے بغیر حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے جس سے قیمتوں کا استحکام، مالی استحکام اور معاشی نمو متاثر ہو گی۔ یہ صورت حال قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث حد سے زیادہ مہنگائی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بعد میں جارحانہ سختی کے اقدامات پر منتج ہو سکتی ہے جو معاشی سرگرمی اور روزگار کے حوالے سے زیادہ مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ردو بدل مشکل لیکن پاکستان کیلئے ضروری ہے جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک کیلئے تاہم سماجی استحکام کے مفاد میں اس ردوبدل کا بوجھ آبادی کو مساویانہ طور پر اٹھانا چاہیے۔ یہ بات یقینی بناتے ہوئے کہ قدرے خوشحال لوگ یوٹیلٹی اشیا کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کو برداشت کریں اور زیادہ ضرورت مند افراد کو مناسب اعانت فراہم کی جائے۔ زری پالیسی کمیٹی کے بنیادی منظرنامے کے تحت امکان ہے کہ عمومی مہنگائی مالی سال2023ء کی بیشتر مدت میں موجودہ بلند سطح پر رہے گی جبکہ سخت پالیسیوں، اجناس کی عالمی قیمتوں کے معمول پر آنے اور فائدہ مند اساسی اثرات کے بل بوتے پر مالی سال2024 ء کے اختتام تک یہ تیزی سے کم ہو کر اپنے ہدف کی حد 5 تا 7 فیصد پر آجائے گی۔ دونوں صورتوں میں خطرات موجود ہیں تاہم ان میں بلند مہنگائی کے خطرات کو سبقت حاصل ہے اور آج کے پالیسی ریٹ میں اضافے کی ترغیب بھی اسی نے دی ہے۔ آگے چل کر زری پالیسی کمیٹی ڈیٹا پر انحصار کرے گی اور خصوصاً ماہ بہ ماہ مہنگائی، مہنگائی کی توقعات اور اجناس کی عالمی قیمتوں کی صورت حال کے ساتھ ساتھ مالیاتی اور بیرونی محاذوں کی پیش رفتوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ ایس بی پی کے مطابق دیگر ابھرتی ہوئی منڈیوں کے برخلاف پاکستان کی کووِڈ سے مضبوط معاشی بحالی جاری ہے جو وبائی مرض سے قبل کی پیداوار کی سطح کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ مالی سال 2022ء کے دوران زری سختی کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں رونما ہونے والا اعتدال جس کی ضرورت تھی پچھلے تین مہینوں میں رک گیا ہے جس کی وجہ غیر ضروری مالیاتی توسیع تھی۔ گزشتہ زری پالیسی اجلاس کے بعد سے طلب کے بیشتر اشاریے مستحکم نمو کی نشان دہی کرتے ہیں کیونکہ سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی فروخت ماہ بہ ماہ بنیاد پر بڑھ گئی اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی نمو میں اضافہ برقرار ہے۔ مستقبل میں، زری سختی اور مالیاتی یکجائی کے سبب مالی سال 2023ء کے دوران نمو کے معتدل ہوکر 3 تا 4 فیصد رہنے کی توقع ہے جس سے مثبت پیداواری فرق کو کم کرنے اور مہنگائی پر طلبی دبائو کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے بلند نمو کی راہ زیادہ پائیدار بنیادوں پر ہموار ہوگی۔ مزید برآں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ گزشتہ تین ماہ میں اعتدال پر رہنے کے بعد مئی میں بڑھ کر 1.4 ارب ڈالر ہو گیا جس کی وجہ پست برآمدات اور جزوی طور پر عید کی تعطیلات کی بنا پر ترسیلات کم ہونا ہے۔ پاکستان دفترِ شماریات کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ تجارتی خسارہ جون میں بڑھ کر 4.8 ارب ڈالر ہو گیا جو فروری میں پست رہا تھا لیکن اب 1.7 ارب ڈالر سے زائد اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ غیر توانائی درآمدات حکومت اور سٹیٹ بینک کے کٹوتی والے اقدامات کے نتیجے میں گزشتہ تین ماہ میں مسلسل کم ہو کر اعتدال پر آئی ہیں تاہم اس کمی کو توانائی کی درآمدات میں نمایاں اضافے نے بالکل بے اثر کر دیا ہے اور توانائی کی درآمدات جو فروری میں 1.4 ارب ڈالر کی پست سطح پر تھیں جون میں 3.7 ارب ڈالر کی ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئیں، اگرچہ اس کا جزوی سبب بلند نرخ ہیں تاہم پیٹرولیم کی نمایاں طور پر بلند مقدار درآمد کرنے سے بھی کافی اثر پڑا۔ اگر توانائی کی درآمدات میں کمی کیلئے فوری اضافی اقدامات نہ کیے گئے، جیسے مثال کے طور پر مارکیٹوں کو جلد بند کرنا، رہائشی اور کاروباری صارفین کی جانب سے بجلی کم استعمال کرنا، اور گھر پر سے دفتر کا کام کرنا اور کار پُولنگ کی حوصلہ افزائی کرنا، تو تجارتی خسارے میں کمی لانا ہمت آزما ہو سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کرکے تخمینے کے مطابق جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد تک لایا جا سکتا ہے بشرطیکہ درآمدات میں صرف بقدرِ ضرورت نمو ہو اور برآمدات اور ترسیلات نسبتاً مستحکم رہیں۔ آئی ایم ایف کے جاری جائزے کی متوقع تکمیل سے بیرونی ذرائع سے ضروری اضافی رقوم کی فراہمی کی راہ ہموار ہو گی جس سے مالی سال 2023ء کے دوران بیرونی فنانسنگ کی ضرورت کو پورا ہونا یقینی ہوسکتا ہے۔ تب روپے پر اضافی دباؤ کم ہو سکے گا اور سٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر مالی سال 2023ء کے دوران اضافے کی اپنی سابقہ روش پر بتدریج واپس آ سکیں گے۔ بیان کے مطابق مالی سال 2022ء میں مالیاتی موقف غیر متوقع طور پر توسیعی تھا جس میں بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 2.4 فیصد رہا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنا تھا جبکہ بجٹ تخمینے یعنی جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے تین گنا سے بھی زائد تھا۔ اس غیر ضروری مالیاتی مہمیز کو متوازن بنانے کیلئے اِس سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کا 0.2 فیصد بنیادی فاضل رقم کا ہدف ہے جس کیلئے نمایاں طور پر بلند ٹیکس محاصل عائد کیے گئے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کی تیز رفتار معاشی شرحِ نمو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور پاکستان کے ملکی قرضے کی نسبتاً قلیل عرصیت کی بنا پر قرضے کی مجموعی ضروریات بہت زیادہ ہیں چنانچہ قرضے کے استحکام کو یقینی بنانے کیلئے یہ استحکام ضروری ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ معاشی یکجائی اس انداز میں کی جائے کہ زری اور مالیاتی پالیسی ایسے مربوط طرز فکر کو اختیار کرے جو مالی سال20ء اور مالی سال 21ء میں کووڈ کے دوران پاکستان کے کامیاب ردعمل سے ہم آہنگ ہو، جس میں پاکستان کی مالیاتی اور بیرونی حدود کا تحفظ کرتے ہوئے معاشی نمو کو تقویت فراہم کی گئی تھی۔ اس کےساتھ ساتھ یہ با ت اہمیت کی حامل ہے کہ ٹیکس کاری کے نئے اقدامات ترقی پسند ہوں، جن میں زیادہ بوجھ قدرے خوشحال لوگ اٹھائیں جبکہ اس کے ساتھ آبادی کے کمزور طبقات کو مناسب تحفظ فراہم کیا جائے جن کیلئے قیمتیں خاصی تشویش کا باعث ہیں ۔ اس تناظر میں پیداوار بڑھانے اور رسدی زنجیر کی رکاوٹیں دور کر کے رسد ی اقدامات کے ذریعے غذائی مہنگائی پر قابو پانا اہم ترجیح ہے۔ زری اور مہنگائی کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ نامیہ اعتبار سے مئی میں نجی شعبے کے قرضے کی نمو لگ بھگ 2 فیصد (ماہ بماہ) کی شرح سے ہوتی رہی جس کا سبب بجلی، خوردنی تیل، تعمیرات سے منسلکہ صنعتوں نیز تھوک اور خردہ تجارت جیسے شعبوں میں سازگار حالات تھے۔ معینہ سرمایہ کاری اور صارفی قرضوں کی طلب میں بھی تیزی آئی جس سے مضبوط معاشی سرگرمی کی عکاسی ہوتی ہے۔ پچھلے ایم پی سی اجلاس کے بعد سے ثانوی منڈی کی یافتیں اور حکومت کی نیلامیوں میں قطع شرحیں جون میں مہنگائی کے بلند اعدادوشمار کے باعث بڑھی ہیں۔ عمومی مہنگائی بھی خاصی بڑھی اور مئی میں 13.8 فیصد (سال بسال) سے بڑھ کر جون میں 21.3 فیصد ہوگئی جو 2008ء سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ یہ اضافہ وسیع البنیاد تھا جس میں توانائی، غذا اور قوزی مہنگائی سب نمایاں طور پر بڑھیں اور صارف اشاریہ قیمت باسکٹ میں تقریباً 80 فیصد اشیا 6 فیصد سے زیادہ مہنگی ہوگئیں۔ مضبوط ملکی طلب اور رسدی دھچکوں کے دور ثانی کے اثرات کی عکاسی مہنگائی میں شہری علاقوں کے اندر 11.5 فیصد اور دیہی علاقوں کے اندر 13.5 فیصد اضافے سے ہوتی ہے۔ ساتھ ہی قلیل مدتی اور طویل مدتی مہنگائی دونوں کی توقعات کے پیمانے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ طلب کشیدہ مہنگائی پر مالیاتی اور زری سختی کے کمی لانے والے اثرات کے باوجود امکان ہے کہ مالی سال 23ء کے بیشتر عرصے کے دوران مہنگائی موجودہ بلند کے قریب رہے گی جس کا سبب بجلی اور ایندھن کی سبسڈیز کے ضروری خاتمے سے منسلک بھاری رسدی دھچکے ہیں جو اگلے بارہ ماہی تک سال بسال اعدادوشمار میں ظاہر ہوتے رہیں گے۔ نتیجے کے طور پر مالی سال 23ء کے دوران پیش گوئی کے مطابق مہنگائی گر کر 19-22 فیصد کی حدود کے اندر آجائے گی جس کے بعد مالی سال 24ء میں تیزی سے کم ہوگی۔ یہ بنیادی منظرنامہ اجناس کی عالمی قیمتوں کی کیفیت، ملکی مالیاتی پالیسی موقف اور شرح مبادلہ کے خطرات سے مشروط ہے۔ زری پالیسی کمیٹی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات پر اثر انداز ہونے والی تبدیلیوں کی محتاط نگرانی برقرار رکھے گی اور ان کے تحفظ کیلئے فوری اقدام کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=316387

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں