اسلام آباد۔7اپریل (اے پی پی):سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی، پیر کو جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی مظہر بنچ میں شامل تھے۔
اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بنچ میں شامل ہیں ۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب میں دلائل جاری رکھے اور موقف اپنایا کہ کچھ عدالتی فیصلوں پر دلائل دینا چاہتا ہوں، سابق جج سعید الزماں صدیقی سمیت دیگر کے کچھ فیصلے ہیں۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے استدلال کیا کہ اگر کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے، وکیل وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے، ٹرائل کہاں ہو گا ؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے؟ تفتیش کون کرتا ہے؟ طریقہ کار کیا ہو گا؟ یہ جاننا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کی شق 2ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کیلئے اختیار سماعت دے رکھا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب الجواب جاری رکھیں گے۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=579189