16 C
Islamabad
جمعہ, مارچ 7, 2025
ہومعلاقائی خبریںسپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر ،آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو...

سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر ،آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو 10000 روپے کی رقم بطور جرمانہ عوثیہ شفیع کو ادا کرنے کا حکم

- Advertisement -

مظفرآباد۔6مارچ (اے پی پی):چیف جسٹس آزادجموںوکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کے فل کورٹ بینچ نے توہین عدالت کے مقدمہ عنوانی عوثیہ شفیع بنام ڈاکٹر مرتضیٰ قریشی رجسٹرار آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے مقدمہ میں آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو 10000 روپے کی رقم بطور جرمانہ عوثیہ شفیع کو ادا کرنے کا حکم دے دیا۔فل کورٹ بینچ میں سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم اور جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان بھی شامل تھے۔

سائلہ کو پبلک ڈاکومنٹ کی نقول نہ فراہم کر کے اسے ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا جب کہ پبلک ڈاکومنٹ تک رسائی ہر شہری کا قانونی حق ہے۔ سائلہ عوثیہ شفیع کی جانب سے راجہ سجاد احمد خان ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کے فیصلہ عنوانی خرم شہزاد خان بنام سیکرٹری زراعت وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں مؤقف اختیار کر رکھا تھا کہ پٹیشنر نے مورخہ 30جنوری 2025 کو آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو بذریعہ درخواست استدعا کی تھی کہ یونیورسٹی میں نئی تخلیق ہونے والی آسامیوں اور لیکچرر کی آسامیوں پر تقرریوں کے احکامات کی نقول فراہم کی جائیں۔

- Advertisement -

مطلوبہ فیس ادا کرنے کے باوجود رجسٹرار نے صرف دو تقرریوں کے احکامات کی نقول فراہم کیں اور مزید احکامات اور نوٹیفیکیشن وغیرہ کی نقول دینے سے انکار کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہیں۔۔ عوثیہ شفیع نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پبلک ڈاکومنٹ کی نقول فراہم کرنے سے انکار سپریم کورٹ کے فیصلہ اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس موصول ہونے پر آزاد کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار سپریم کورٹ میں آج پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ پٹیشنر عوثیہ شفیع کو مطلوبہ احکامات اور نوٹیفیکیشن ہا کی نقول فراہم کر دی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اگرچہ پبلک ڈاکومنٹ کی نقول کی فراہمی سے انکار توہین عدالت ہے لیکن کیوں کہ رجسٹرار نے عدالتی نوٹس موصول ہونے کے دوران یہ کاپیاں پٹیشنر کو فراہم کر دی ہیں ایسی صورت میں نرمی برتتے ہوئے یونیورسٹی کے رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں نہیں لا رہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یونیورسٹی کے رجسٹرار کے اس طرز عمل کی وجہ سے پٹیشنر کو غیر معمولی مشکلات، ذہنی اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی بنا پر اسے اپنا قانونی حق حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا ہے،

لہٰذا رجسٹرار کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ پٹیشنر کو مبلغ 10ہزار روپے بطور جرمانہ ادا کرے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اس طرح کے غیر قانونی اقدامات سے آئین اور قانون کی واضح خلاف ورزی اور نفی ہوتی ہے۔ واضح عدالتی فیصلہ کے با وجود اس طرح کا طرز عمل افسوسناک ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ہم مقدمہ خرم شہزاد میں دئے گئے فیصلہ کی روشنی میں دوبارہ حکم دیتے ہیں کہ تمام سرکاری محکمے تحت قانون پبلک ڈاکومنٹ کی نقول سائلین کو فراہم کرنے کے پابندہیں۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کی نقل سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو اس حکم کے ساتھ ارسال کرنے کی ہدایت کر دی کہ یہ فیصلہ تمام سرکاری محکموں کو بذریعہ سرکلر بھیجا جائے تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من و عن عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=569617

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں